سائنس دانوں نے زیادہ میٹھا کھانے سے روکنے والا ہارمون تیار کر لیا

سائنس دانوں نے زیادہ میٹھا کھانے سے روکنے والا ہارم

سائنس دانوں نے زیادہ میٹھا کھانے سے روکنے والا ہارم

نیو یارک ۔۔۔ نیوز ٹائم

ہر انسان اپنے فطرت اور عادت کے مطابق نمک، مرچ، مصالحہ اور میٹھی اشیا کو پسند کرتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ تو میٹھی ڈشز کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں جس کے باعث وہ جلد موٹاپے  اور شوگر کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اب ان حضرات کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سائنس دانوں نے نہ صرف زیادہ میٹھا کھانے کا راز معلوم کر لیا ہے  بلکہ ایسا ہارمون تیار کر لیا ہے جو انہیں زیادہ میٹھا کھانے سے روک دے گا۔ امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے میٹھے کے عادی افراد کے لیے اس کی مقدار کم کرنے کی غرض سے علاج دریافت کر لیا ہے  جسے جلد طبی دنیا میں متعارف کرا دیا جائے گا۔ محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے چوہے پر کے گئے  تجربے کے دوران ایسے ہارمون کا پتہ چلا لیا ہے  جو میٹھا کھانے کی خواہش کو بہت ہی کم کر دیتا ہے اس سے شوگر، موٹاپے اور زیادہ میٹھا کھانے جیسی بیماریوں کے علاج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق دریافت ہونے والے ہارمون کو ایف جی ایف 21 کا نام دیا گیا ہے  جو عام طور پر جگر سے پیدا ہوتا ہے اور جیسے ہی زیادہ چینی رکھنے والی اشیا جیسے سفید روٹی وغیرہ کھائی جاتی ہے تو یہ ہارمون دماغ کو کم میٹھا کھانے کا سگنل بھیجتا ہے اور انسان کی اندر میٹھا کھانے کی خواہش جلد ہی کم ہونے لگتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کا تجربہ کرنے کے لیے لیب میں موجود کچھ چوہوں کو ان ہارمونز کے انجیکشن لگائے جبکہ کچھ کو ایسے ہی رہنے دیا  جس کے بعد انہیں متوازن اور چینی سے بھر پور غذائیں کھانے کے انتخاب کی آزادی دی گئی جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن چوہوں کو ہارمونز کے انجیکشن لگائے گئے تھے انہوں نے دیگر چوہوں کے مقابلے میں 7 گنا کم میٹھی غذائیں کھائیں۔ سائنس دانوں نے ایک اور تجربے کے دوران لیب میں دو قسم کے چوہوں کی تخلیق کی جن میں ایک گروپ وہ جو ایف جی ایف 21 ہارمونز پیدا نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرا گروپ عام چوہوں کے مقابلے میں 5 سو گنا زیادہ یہ ہارمونز پیدا کر رہا  تھا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جو چوہے ایف جی ایف 21 ہارمونز پیدا نہیں کر رہے تھے  وہ ہارمونز پیدا کرنے والے چوہوں سے کہیں زیادہ میٹھی اشیا کھا رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اہم دریافت ہے اور اس سے شوگر جیسی بیماری پر قابو پانے میں بہت مدد ملے گی۔

No comments.

Leave a Reply