بھارت صحافت کے لئے سب سے خطرناک ملک قرار

سال 2015 میں 110 صحافی ہلاک ہوئے

سال 2015 میں 110 صحافی ہلاک ہوئے

پیرس ۔۔۔ نیوز ٹائم

اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لحاظ سے صحافت اس سال بھی دنیا کا خطرناک ترین شعبہ ثابت ہوا اور سال کے دوران 110 صحافی اپنی جان کی بازی ہار گئے جبکہ شام اور عراق صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک ممالک ثابت ہوئے اور بھارت کو صحافیوں کے لیے ایشیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز کی سال 2015 ء کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے  کہ اس سال 110 صحافی ہلاک ہوئے جن میں سے 67 صحافی اپنی پیشہ وارارنہ ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے نشانہ بنے  جبکہ دیگر 43 مختلف حالات میں مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ 27 سٹیزن صحافی اور 7 میڈیا ورکرز بھی اس سال مارے گئے، تنظیم کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافی زیادہ تر باقاعدہ ان کے خلاف منصوبہ کے ذریعے کیے گئے تشدد سے ہلاک ہوئے  جس میں ان ملکوں کی حکومتوں کی غفلت شامل ہے جس پر اقوام متحدہ کو ایکشن لینا چاہئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دو تہائی صحافی جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ہلاک ہوئے تاہم اس بار اتنی ہی تعداد نسبتاً پرسکون ممالک میں غیر ریاستی عناصر کا شکار بنے  جبکہ رواں سال 110 میں سے 40 فیصد صحافی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور القاعدہ کا نشانہ بنے اس طرح پیشہ وارانہ ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران 2005 ء سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 787 تک جا پہنچی ہے۔ جنگ سے متاثرہ ممالک عراق اور شام دنیا کے خطرناک ترین ممالک ثابت ہوئے جہاں بالترتیب 11 اور 10 صحافی جان کی بازی ہار گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فرانس جیسا ملک صحافیوں کی ہلاکتوں کے اعتبار پر تیسرے نمبر پر ہے جہاں 8 صحافی مارے گئے جو جنوری میں فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق بھارت صحافیوں کے لیے ایشیا کا خطرناک ترین ملک رہا جہاں 8 صحافیوں کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے مارا گیا  جبکہ کچھ کو غیر قانونی سرگرمیوں کو سامنے لانے پر ٹارگٹ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں نے بھارت کو میڈیا کے افراد کے لیے خطرناک ترین ملک کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے اور وہ پاکستان اور افغانستان سے بھی خطرناک ملک بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2015 ء میں 54 صحافی اغوا کیے گئے جن میں سے 26 صرف شام میں اغوا کیے گئے جبکہ 153 صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

No comments.

Leave a Reply