انگریز جب تاج محل کو توڑنے لگے

آگرہ کا تاج محل 1632ء  تا 1653ء کے مابین تعمیر ہوا

آگرہ کا تاج محل 1632ء تا 1653ء کے مابین تعمیر ہوا

نیوز ٹائم

دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک آگرہ کا تاج محل 1632ء  تا 1653ء کے مابین تعمیر ہوا۔ خیال ہے کہ اس کا تصوراتی نقشہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تخلیق کیا۔  جبکہ اس نقشے کو عملی روپ دینے کی ذمہ داری ماہرین تعمیرات، Ustad Lahori ، Mir Abdul Karim ، Murshid Shirazi اور Professor Hamid نے انجام دی۔ یہ مقبرہ 55.50 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ جب مغل حکومت کو زوال آیا، تو انگریزوں  نے تاج محل اور مغلوں کی دیگر تاریخی عمارات پر قبضہ کر لیا۔ انہیں حیرت تھی کہ پس ماندہ ہندوستانیوں نے اتنے خوبصورت اور دیدہ زیب تعمیراتی شاہکار کیونکر تخلیق کر لیے۔ چنانچہ حسد کی آگ میں جل کر انگریز مورخین اپنی کتب تاریخ میں دعویٰ کرنے لگے  کہ تاج محل، لال قلعہ، مقبرہ ہمایوں وغیرہ دراصل یورپی ماہرین تعمیرات نے ڈیزائن کیے ہیں۔ آج انگریز بڑے اصول پسند، قانون پرست، دیانتدار اور انسانی حقوق کے محافظ بنتے ہیں، مگر تاریخ ان کے گناہوں کا پردہ چاک کرتی ہے۔ مورخین نے ہندوستان میں برطانوی استعمار کی لوٹ مار بیان کی ہے۔ خاص طور پر انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کی عمارات سے جو سلوک کیا، وہ بہت خوفناک ہے۔ انگریزوں نے آگرہ، دہلی، لاہور اور دیگر شہروں میں واقع مغلوں کے قلعے عسکری حصے میں تبدیل کر دیئے۔ قلعوں، مقابر اور مساجد کی دیواروں سے قیمتی پتھر اتار لیے گئے۔ باغات اجاڑ کر وہاں فوجیوں کی رہائش کے لیے بیرکیں بنا دی گئی۔ قلعہ دہلی میں دیوان عام اسلحہ خانہ قرار پایا۔ 1876 میں پرنس آف ویلز دہلی آیا۔ اس موقع پر پورے دیوان خاص میں سفید قلعی پھیر دی گئی تاکہ وہ جگمگا اٹھے۔ جنگ آزادی 1857ء کے بعد انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ دہلی اور لاہور کی جامع مسجد گرا دی جائے۔ وہ ان کی جگہ سرکاری عمارتیں تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ مگر مسلمانوں کے غم و غصے اور احتجاج دیکھتے ہوئے یہ خوفناک منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ 1803 میں آگرہ انگریزوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔ جلد ہی انہوں نے تاج محل کو کلب کی شکل دے ڈالی۔ تاج محل کے میدانوں میں نوجوان انگریز جوڑے عشق لڑاتے اور چہل پہل کرتے نظر آنے لگے۔ مرکزی دروازے کے سامنے سنگ مرمر سے بنے فرش پر اور گنبد کے نیچے ناچ گانے کی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔ براس بینڈ کی دھنوں پر بیگمات ناچتی رہتی۔ انگریزوں کی دیدہ دلیری بڑھی، تو تاج محل کی مساجد ہنی مون منانے والوں کو کرائے پر دی جانے لگیں۔ مقامی مسلمانوں نے احتجاج کیا تو یہ گھنائونی روش ختم ہوئی۔ مگر مسلمانوں کو چڑانے کی خاطر انگریز تاج محل کے برآمدوں اور میدانوں میں شراب و کباب کی محفلیں منعقد کرنے لگے۔ وہاں پکنک پارٹیاں بھی ہوتیں اور شام تک میدان میں ڈھیروں کچرا جمع ہو جاتا۔ 1828 میں Lord William Bentinck ہندوستان کا گورنر جنرل بن گیا۔ یہ ہندوستانیوں سے ازحد نفرت کرتا اور خصوصاً مقامی فنون لطیفہ کو گھٹیا و دقیانوسی سمجھتا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ تاج محل کو مسمار کر دیا جائے گا۔ تاج محل کا سنگ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر پھر لندن لے جائے جاتے۔ وہاں انہیں امرا کے ہاتھوں فروخت کرنے کا منصوبہ تھا تاکہ وہ قیمتی پتھروں کو اپنے محلات میں استعمال کر سکیں۔ پہلے مرحلے کے طور پر Lord William Bentinck نے شاہی قلعہ، دہلی کی دیواروں سے قیمتی پتھر اتروایا اور اسے برطانیہ بھجوا دیا۔ بعض قیمتی پتھر King George IV کو تحفے میں گئے۔ جلد ہی تاج محل کو مسمار کرنے کی خاطر مشینری اور افرادی قوت احاطہ مقبرے میں جمع کر لی گئی۔ جب مقبرے کی توڑ پھوڑ کا کام شروع ہونے والا تھا کہ اچانک لندن سے خبر آئی، لال قلعے کے قیمتی پتھر کی نیلامی کامیاب نہیں ہوئی۔ انگریز امرا نے ہندوستانی پتھر خریدنے میں دلچسپی نہیں لی۔ چنانچہ تاج محل مسمار کرنے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے، اگر انگریز لال قلعہ، دہلی کے پتھروں کو ہاتھوں ہاتھ خریدتے، تو آج تاج محل کا نام و نشان نہ ہوتا۔ لالچی انگریز حکومت پیسہ کمانے کے چکر میں اس عجوبہ عالم کو مسمار کر دیتی اور تاج محل کا نام صرف کتب تاریخ میں باقی رہ جاتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک انگریز حکمران ہی نے تاج محل کو نابود ہونے سے بچایا۔ جب 1899ء  میں George Curzon گورنر جنرل مقرر ہوا، تو ایک دن وہ تاج محل کی سیر کرنے پہنچا۔ مقبرے کی حالت زار نے اسے افسردہ کر دیا۔  عمارتوں کے پتھر اکھڑ رہے تھے۔ باغات اجڑ چکے تھے۔ چنانچہ اس نے تاج محل کی تزئین و آرائش کرنے کا حکم دیا۔  یہ منصوبہ 1902ء  تا 1905ء تک جاری رہا۔ اس منصوبے کے ذریعے تاج محل کی دلکشی، خوبصورتی اور عظمت خاصی حد تک بحال ہو گئی۔

No comments.

Leave a Reply