ٹرمپ امریکہ کی شہرت کو داغدار کر رہا ہے: باراک اوباما

امریکی صدر باراک اوباما

امریکی صدر باراک اوباما

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر باراک اوباما نے خبردار کیا ہے کہ وائٹ ہائوس کے لیے صدارتی امیدواروں کی دوڑ سے بیرون ملک امریکا کے تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ امریکی کانگریس کے ارکان کے ایک گروپ سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس میں دونوں جماعتوں کے ارکان شامل تھے۔ انھوں نے صدارتی مہم کے دوران سطحی اور تقسیم کے بیج بونے والی بازاری زبان کے استعمال پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا تعلق امریکی برانڈ سے بھی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں، دنیا اس کو دیکھتی اور اس پر کان دھرتی ہے۔ انھوں نے آئرش وزیر اعظم کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس برانڈ کو تار تار ہوتا ہوا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں۔ باراک اوباما نے دوسری مرتبہ صدارتی امیدواروں کی چرب زبانی پر اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور یہ دراصل ری پبلکن پارٹی کے سرکردہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ بظاہر یہ یقینی نظر آ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان کی شعلہ بیانیوں پر وائٹ ہائوس کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ باراک اوباما اپنے دور صدارت میں بیرون ملک امریکا کا تشخص بہتر بنانے میں لگے رہے ہیں اور اس میں نمایاں بہتری بھی آئی ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر میں عالمی رویوں کے مطالعے کے ڈائریکٹر Richard Wike کا کہنا ہے کہ ہم نے اوباما کے دور میں دنیا کے امریکا کو دیکھنے کے انداز میں ایک بڑی تبدیلی ملاحظہ کی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بھر میں آج امریکا کے بارے میں رویے جارج W. Bush کے دور سے کہیں زیادہ مثبت ہیں۔ اب شاید اوباما کی کوششیں خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے پریس سیکریٹری Josh Ernest کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک میں لوگ امریکی سیاست کو قریب سے دیکھتے ہیں اور ان کی اس کے بارے میں ایک تفہیم ہے۔ اس لیے یہاں مباحث کے دوران اختیار کیے گئے لب و لہجے کا ایک اثر ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دوران تقریروں میں تند و تیز لہجے میں بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ پہلے انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہونی چاہیے۔ اس پر انھیں امریکی مسلمانوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر انھوں نے بیان داغا کہ وہ میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار تعمیر کریں گے اور میکسیکو سے اس کی لاگت ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اس پر میکسیکو نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ میکسیکن صدر Enrique Pena Nieto نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بیان کو Mussolini and Hitler کے مشابہ قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین Philippe Grande نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد واشنگٹن کے پہلے دورے کے موقع پر تارکین وطن کے مسئلے پر بحث پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ صدر اوباما کے لاطینی امریکا کے لیے سابق مشیر ڈان ریسٹریپو کا کہنا ہے  کہ صدر ٹرمپ کے یقینی طور پر امریکیوں کے باہمی تعلقات پر انتہائی منفی اثرات ہوں گے۔ اگر اس مرحلے پر ہی ٹرمپ کے خیالات کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو اس سے امریکا کے جمہوری اداروں کو تقویت ملے گی اور یہ سود مند ہو گی۔

No comments.

Leave a Reply