ضرورت پڑی تو فوجی دستے دوبارہ شام بھیج دیں گے: روسی صدر

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن

ماسکو ۔۔۔ نیوز ٹائم

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے  کہ شام میں تعینات بیشتر روسی فوجی دستوں کے انخلا کے باوجود اگر دوبارہ ضرورت پڑی تو روس کے فوجی دستے دوبارہ شام بھیج دیئے جائیں گے۔ گزشتہ روز کریملن میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر  نے کہا  کہ روس کے کچھ فوجی بدستور شام میں موجود رہیں گے جو صدر بشار الاسد کی حامی افواج کو ان کی پیش قدمی میں مدد دینے کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ شام میں جاری تصادم میں اضافہ نہیں چاہتے اور پرامید ہیں کہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے گروہ عقل کا استعمال کریں گے  اور کسی امن معاہدے پر متفق ہو جائیں گے۔ کریملن میں ہونے والی تقریب شام سے لوٹنے والے روسی فوجیوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی  جس میں 700 سے زائد روسی فوجی اہلکار اور افسران شریک تھے۔ تقریب کے دوران صدر پیوٹن نے شام میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے روسی فوجیوں کو اعزازات سے بھی نوازا۔ روسی صدر پیوٹن نے رواں ہفتے اچانک شام میں اہداف کے حصول میں کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے  وہاں تعینات بیشتر روسی فوجی دستوں کو وطن واپسی کا حکم دیا تھا۔ روسی صدر پیوٹن کے حکم کے چند گھنٹوں بعد ہی شام میں موجود روسی فوجی دستوں کی وطن واپسی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو تاحال جاری ہے۔ روسی فضائیہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں موجود ان کے بیشتر اہلکاروں کے انخلا کا عمل مزید 2 سے 3 روز میں مکمل ہو جائے گا۔ امریکی حکام کے اندازوں کے مطابق شام میں 3 سے 6 ہزار تک روسی فوجی اہلکار موجود ہیں۔ روسی حکومت نے شام میں موجود اپنے اہلکاروں کی درست تعداد کبھی نہیں بتائی  لیکن ماسکو نے اعلان کیا ہے کہ بیشتر فوجی دستوں کے انخلا کے بعد بھی شام میں 1000 تک روسی فوجی اہلکار تعینات رہیں گے۔ گزشتہ روز تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے واضح کیا کہ ان کا ملک شام میں اپنے فضائی اور بحری اڈے برقرار رکھے گا  جبکہ روسی جنگی طیارے ISIS، القاعدہ سے منسلک باغی تنظیم النصرہ فرنٹ اور ان دیگر گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں بھی جاری رکھیں گے جنہیں اقوامِ متحدہ نے شدت پسند قرار دے رکھا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حالات کا تقاضا ہوا تو روس عملاً چند گھنٹوں کے اندر اندر شام میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دے گا اور صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر ے گا۔ شام میں گزشتہ 3 ہفتوں سے جاری جنگ بندی کے باعث پرتشدد واقعات میں نمایاں کمی آ چکی ہے  جبکہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کے درمیان جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام امن بات چیت بھی جاری ہے۔

No comments.

Leave a Reply