انخلا کے بعد افغانستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے

انخلا کے بعد افغانستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے

انخلا کے بعد افغانستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کے سولہ خفیہ اداروں نے حال ہی میں جاری کئے جانے والے نیشنل انٹیلی جنس اسٹیمیٹ انخلا کے بعد افغانستان سے نکلنے، چند ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی، کابل حکومت  کو اربوں ڈالر دیئے جانے کے باوجود 2017ء تک امریکی و اتحادی ممالک کو افغانستان میں حاصل ہونے والی اب تک کی تمام کامیابیاں رائیگاں چلے جانے، طالبان و دیگر طاقت ور گروہوں کے اثر و رسوخ میں اضافے کی پیشگوئی کی ہے۔ وائٹ ہائوس اور انٹیلی جنس اسٹیمیٹ جاری کرنے والے ادارے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس آفس کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اس رپورٹ کے نتیجے میں افغانستان سے جلد انخلا کے حامی کانگریس کے اراکین بھی اپنے موقف میں سختی لانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اس خفیہ رپورٹ کے بارے میں کئی اعلی حکام کو بریفنگ دی گئی ہے اور بعض نے اس رپورٹ کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ خفیہ ادروں کی رپورٹ کو افغانستان کی بھیانک تصویر کشی قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے بعد انخلا سے قبل کی امریکی پالیسی کے خد و خال کے بارے میں اوباما انتظامیہ کے اندر جاری بحث میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے حوالے سے باخبر ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ سے سیکیورٹی معاہدہ نہ ہوا تو انخلا کے فوری بعد افغانستان ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ امریکی اور اس کے اتحادی ممالک نے انخلا کے بعد افغانستان کی مالی امداد کو سیکیورٹی معاہدے پر دستخط سے مشروط کر رکھا ہے، تاکہ اس کے فوجیوں کی بڑی تعداد 2014ء کے بعد بھی وہاں تعینات رہیں۔ رپورٹ کے مطابق انخلا کے بعد افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی عدم موجودگی اور اربوں ڈالر کی امداد نہ ملنے کی وجہ سے افغانستان کی صورتحال انتہائی تیزی سے خراب ہو گی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے یہ کہیں پر واضح نہیں ہو رہا ہے کہ افغانستان میں تعینات افواج اب تک کتنی مضبوط ہیں۔ ایک امریکی افسر کا کہنا ہے کہ این آئی ای کی رپورٹ جنگ کے عرصے میں سامنے آنے والی انٹیلی جنس کی رپورٹس کی نسبت انتہائی تاریک ترین ہے۔ رپورٹ میں یقینی پیش گوئی کے بجائے اس میں جی سقم اور غیر یقینی عناصر پائے جاتے ہیں کہ آخر کس طرح 2014ء میں معاملہ ختم ہو جائے گا اور آئندہ صدارتی انتخابات کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو گا۔ میرے خیال میں ہمیں سیاسی قوتوں میں قربت جیسے امکانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اعلی امریکی افسر کا کہنا ہے کہ رپورٹ غیر منصفانہ اور انتہائی منفی ہے۔ ضروری نہیں کہ طالبان بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آئیں۔ امریکی خفیہ ادارے طویل عرصے سے افغان افواج کو کم تر سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ تم چاہے کچھ بھی کر لو صورتحال مایوس کن ہے، تم صرف معاملات کو ٹال رہے ہو۔ میرے خیال میں خفیہ اداروں کی رپورٹ کسی طرح بھی حتمی نہیں ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق رپورٹ میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ امریکی انخلا کے بعد کن کن علاقوں میں کون کون سا گروہ قبضہ کر سکتا ہے۔ سولہ انٹیلی جنس  اداروں کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کی حکومت کی ساکھ ختم ہوتی جا رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر متعلقہ ہو تی جا رہی ہے۔ بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ 2009ء میں افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں اضافے کی پالیسی کے خلاف فرد جرم ہے۔ امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ امریکی فوجی حکام کے دبائو پر صدر اوباما نے کیا تھا، تاکہ عسکریت پسندوں کو کمزور کیا جائے اور افغان اداروں کو مضبوط کیا جا سکے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ترقی کے کاموں کی ساکھ میں اضافہ ہوا۔ افغان فوج کی مہارت بڑھی اور القاعدہ دوبارہ قدم جمانے کے قابل نہ رہ سکی۔ فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے طالبان کو بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس اسٹیمیٹ معاملات کا جائزہ لینے کا اوزار ہے، خفیہ اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو پالیسیوں کے ممکنہ نتائج سے آگاہ رکھے۔ حکومت ان جائزوں کو اقدامات سے قبل مد نظر رکھتی ہے، تاکہ اقدامات درست ہوں۔ حکومت انٹیلی جنس رپورٹس کے قابل بھروسہ ہونے کا جائزہ لینے کے لیے خفیہ اداروں کے حکام، فوجی افسران، سفارت کاروں اور ترقیاتی امور کے ماہرین سے مشاورت کرے گی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغان حکومت 2014ء کے بعد بھی اس کے ہزاروں فوجیوں کو انسداد دہشت گردی کارروائیوں اور فوجی تربیت کے نام پر رکھنے کی اجازت دے دیں۔ تاہم افغان صدر حامد کرزئی تا حال امریکی کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں۔ این آئی ای رپورٹیں عموماً اہم امور پر پالیسی کے اعلان سے پندرہ روز قبل جاری کی جاتی ہیں۔

No comments.

Leave a Reply