وادی اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے متنازعہ قانون کی صہیونی کابینہ سے منظوری

اسرائیلی کابینہ

اسرائیلی کابینہ

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسرائیلی کابینہ نے اردن سے متصل پر فضاء اور تاریخی مقام ‘وادی اردن’ کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے ایک متنازعہ قانون کی منظوری دی ہے۔ یہ مقام تاریخی اور تہذیبی حوالوں سے منفرد اور ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں جلیل القدر صحابی رسول امین امت سیدنا عبیدہ ابن الجراح اور کئی دیگر محترم صحابہ کرام کے مزارات واقع ہیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیل کی حکمراں جماعت ”لیکوڈ” اور اس کی اتحادی ”جیوش ہوم” کے وزراء نے حال ہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی، جس کے تحت مقبوضہ وادی اردن کو مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کی طرح اپنے انتظامی کنٹرول میں لانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ کابینہ کمیٹی میں لیکوڈ اور جیوش ہوم کے آٹھ وزارء نے اس متنازعہ قانون کی حمایت کی جبکہ صرف تین وزراء نے اس کی مخالفت کی۔ مخالفت کرنے والوں میں وزیر انصاف زیپی لیونی بھی شامل ہیں۔ صہیونی کابینہ میں یہ مسودہ قانون لیکوڈ کے رکن پارلیمنٹ میری ریگیو نے پیش کیا۔ مسٹر ریگیو اس سے قبل وادی اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیرات سے متعلق قوانین سازی پر عمل درآمد کی بھی نگرانی کر چکے ہیں۔ وادی اردن کو یک طرفہ طور پر اسرائیل میں ضم کیے جانے پر فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ مذاکرات کار ڈاکٹر صائب عریقات نے اپنے ایک بیان میں اس اقدام کو ”امن مساعی پر حملہ” قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی نگرانی اور کوششوں سے جاری دیرپا قیام امن کی کوششوں کے لیے اس طرح کے اقدامات سخت چیلنج ہیں۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی ”معا” کے مطابق صائب عریقات کا کہنا تھا کہ وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا قانون منظور کر کے تل ابیب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک عالمی قوانین اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عریقات کے مطابق میں یہ بات واضح الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ اسرائیلی حکومت نے وادی اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کر کے عالمی قوانین کو دیوار پر دے مارا ہے۔ دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام کا وادی اردن پر قبضے کا فیصلہ جارحیت کا عمل ہے اور اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہئیے۔ حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے ایک پریس ریلیز میں کہا  ہے کہ اسرائیلی وزارتی کمیٹی کے فیصلے کا مقابلہ کیا جانا چاہئیے اور اسے ہر صورت ناکام بنایا جانا چاہئیے۔ ترجمان حماس کے مطابق یہ فیصلہ عرب وزرائے خارجہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی اور قابض اسرائیلی حکام کے درمیان جاری مذاکرات کی توثیق کے بعد سامنے آیا ہے۔ فوزی برھوم کا کہنا تھا کہ “ہم نے متعدد بار اس [عرب] فیصلے کے نتائج سے خبردار کیا ہے اور اس کے فلسطینی عوام کے حقوق پر اثرات سے باخبر کیا کیوں کہ یہ فیصلہ صیہونی اقدامات کو آڑ فراہم کرتے ہیں۔” خیال رہے کہ اردن کی سرحد سے متصل وادی اردن ایک پر فضا اور سرسبز و شاداب سرزمین ہے۔ یہ تاریخی اعتبار سے بھی اپنی ایک خاص پہچان اور اہمیت رکھتی ہے۔ اردن کی سرحد کے ساتھ ساتھ چار سو کلو میٹر کی سرحد پر پھیلی یہ وادی مقامی فلسلطینی آبادی کی زراعت اور آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ فلسطین میں اسے پھلوں اور سبزیوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ وادی اردن کے کئی پھل مشہور ہیں مگر یہاں پر کاشت کیا جانے والا کیلا اپنی مثال آپ ہے۔

No comments.

Leave a Reply