وہ علامات جو خودکشی کی وجہ بن سکتی ہیں

نفسیاتی بیماری پر قابو پا کر بہت سی انسانی جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں

نفسیاتی بیماری پر قابو پا کر بہت سی انسانی جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان صرف مغرب کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہ رجحان مسلسل فروغ پا رہا ہے لیکن کسی بھی فرد میں خودکشی کی خواہش عموماً راتوں رات یا فوری طور پر پیدا نہیں ہوتی بلکہ پہلے اس کی کچھ مخصوص علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جن پر سنجیدگی سے نظر رکھی جائے تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نفسیاتی امراض کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کسی شخص کو صرف اسی وقت نفسیاتی مریض سمجھا جاتا ہے جب وہ مرض کی شدت کے باعث پاگل پن کی حدود میں داخل ہو جائے۔ یہ بات خاص طور پر ڈپریشن کے لیے درست ہے جو مختلف باتوں کی بنا پر لاحق ہو سکتا ہے اور بتدریج شدت اختیار کرتے ہوئے کسی شخص کو خودکشی کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ عالمی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لیے ڈپریشن کا مسئلہ کسی بھی طور پر  diabetes سے کم سنگین نہیں،  البتہ تھوڑی سی توجہ اور احتیاط سے اس نفسیاتی بیماری پر قابو پا کر نہ صرف لاکھوں گھروں کا سکون واپس لایا جا سکتا ہے بلکہ بہت سی انسانی جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر کسی کی شخصیت (یعنی اس کی عادت اور مزاج) میں واضح تبدیلیاں آ رہی ہوں،  وہ لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دے اور تنہائی کو پسند کرنے لگے، چڑچڑے پن میں مبتلا ہو جائے اور بار بار غصے میں آ جائے،  اپنی صحت اور حلیے کی طرف سے لاپرواہی برتنے لگے، اور اس پر ہر وقت ناامیدی اور مایوسی کا غلبہ رہنے لگے  تو ہمارے ہاں ایسے کسی بھی فرد کو بددماغ جیسے الفاظ دے کر عزیز، رشتہ دار اور قریبی احباب اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں حالانکہ یہی علامات ڈپریشن کو ظاہر کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کو فوری توجہ کے ساتھ ساتھ مناسب علاج کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے کسی دوست، رشتہ دار یا قرابت دار میں مذکورہ تمام یا ان میں سے چند علامات نمودار ہونے لگیں تو بہتر ہو گا کہ اس سے ملنا جلنا نہ چھوڑیئے  بلکہ اس کی باتوں کو ہمدردی سے سنتے ہوئے اسے مخلصانہ مشورے دیں،  اس کی دلجوئی کریں اور اسے یقین دلائیں کہ آپ اس کے ہر دکھ اور ہر تکلیف میں اس کے ساتھ ہیں کیونکہ آپ کا یہ معمولی سا اخلاقی تعاون بھی کسی شخص کی زندگی بچا سکتا ہے۔ اگلے مرحلے پر آپ اسے کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ مشکل ہو گا لیکن نرمی سے سمجھا کر بات منوائی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ایسی صورت میں کسی روایتی نفسیاتی معالج (سائیکاٹرسٹ) ہی کو دکھایا جائے بلکہ ڈپریشن سے چھٹکارا پانے میں این ایل پی (NLP) کے کسی ماہر سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ بات دھیان میں رکھنے والی ہے کہ مریض کو ڈپریشن ختم کرنے والی دوائوں (اینٹی ڈپریسنٹس) کی بہت زیادہ مقدار نہ دی جائے کیونکہ حالیہ برسوں میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ زیادہ مقدار میں اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں استعمال کرتے ہیں ان میں بھی خودکشی کی خواہش بڑھنے لگتی ہے۔این ایل پی کے ماہرین (NLPers) دعوی کرتے ہیں کہ این ایل پی کی چند نشستوں میں کوئی دوا استعمال کیے بغیر ہی وہ ذہنی بیماریاں بھی ختم ہو سکتی ہیں جو روایتی طریقے پر نفسیاتی علاج کروانے اور برسوں تک دوائیں کھانے سے بھی دور نہیں ہوتیں۔

خودکشی کا ارادہ رکھنے والوں کی نمایاں علامات:

اوپر کی سطور میں ڈپریشن کی چند علامات بیان کر دی گئی ہیں کیونکہ ڈپریشن ہی خودکشی کی خواہش کو جنم دینے والی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔ تاہم کچھ خاص علامات ایسی ہیں جو خودکشی کرنے یا خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں اب تک سب سے زیادہ اور نمایاں طور پر دیکھی گئی ہیں جن پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

موت کے بارے میں بار بار بات کرنا:

شدید غم میں مبتلا رہنا، عدم دلچسپی، کھانے اور سونے میں مشکلات بلاضرورت ایسے کاموں میں پڑتے رہنا جن کا نتیجہ موت کی صورت میں نکل سکتا ہے جیسے کہ تیز رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرنا اور بار بار سگنل توڑنا وغیرہ۔ ان چیزوں کی پرواہ نہ کرنا جن کا پہلے بہت خیال رہتا تھا۔ خود کو حقیر، معمولی، بے مقصد، ناامید اور بے یار و مددگار ظاہر کرنے والے خیالات کا بار بار اظہار کرنا۔ معاملات کو جلد بازی میں درست کرنے اور پرانی رنجشیں ختم کرنے کی کوششیں کرنا۔ میں نہ ہوتا/  ہوتی تو اچھا ہوتا اور اسی طرح کے جملے ادا کرتے رہنا۔ اچانک اور بغیر کسی وجہ کے انتہائی غمگین سے بہت خوش نظر آنا (یا خوش نظر آنے کی کوشش کرنا) اور خود کو پرسکون ظاہر کرنا۔ خودکشی کے واقعات کا تواتر سے تذکرہ کرنا۔ لوگوں سے خاص طور پر ملنے جانا اور رخصت ہوتے وقت اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا جیسے کلمات ادا کرنا۔

No comments.

Leave a Reply