امریکہ کے نیچے زمین کی گہرائی میں پگھلے ہوئے کاربن کی ایک ایسی جھیل، برطانوی سائنسدانوں کا انکشاف

جھیل دراصل لاوے کی طرح کھولتے ہوئے کاربن پر مشتمل ہے

جھیل دراصل لاوے کی طرح کھولتے ہوئے کاربن پر مشتمل ہے

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

زلزلوں پر تحقیق کرنے والے برطانوی سائنسدانوں کو امریکہ کے نیچے زمین کی گہرائی میں پگھلے ہوئے کاربن کی ایک ایسی جھیل کا پتہ چلا ہے کہ جو پھٹ گئی تو صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ آس پاس کے ممالک پر بھی تباہی نازل ہو جائے گی۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جھیل دراصل لاوے کی طرح کھولتے ہوئے کاربن پر مشتمل ہے جس کا پھیلائو 18 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، یعنی یہ دنیا کے کئی بڑے ملکوں سے بھی زیادہ رقبے پر محیط ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پگھلے ہوئے کاربن کی یہ جھیل نہ صرف کسی بڑی ماحولیاتی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے  بلکہ اس دریافت نے کرہ ارض پر کاربن کی موجود تعداد کے بارے میں ہمارے نظریات بھی تبدیل کر دیئے ہیں۔ زیر زمین کاربن کا گویا سمندر بہہ رہا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس کی اصل مقدار ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پگھلا ہوا کاربن کتنی بڑی تعداد کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ اگر اس میں سے ایک فیصد بھی خارج ہو جائے تو یہ اڑھائی کھرب بیرل تیل جلانے کے مترادف ہو گا۔ اگر اس کا قدرے بڑا حصہ خارج ہو گیا تو یہ ایسے ہوگا گویا کرہ ارض پر ایٹم بموں کی بارش ہو جائے۔ سائنسدانوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ امریکہ کے Yellow Stone آتش فشاں کے پھٹنے کی صورت میں زیر زمین کاربن کا اخراج بھی شروع ہو سکتا ہے۔ State of Montana and Wyoming کے Yellow Stone نیشنل پارک کا آتش فشاں اس سے پہلے ساڑھے 6 لاکھ سال قبل پھٹا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتنا بڑا آتش فشاں ہے کہ اس کی تباہی ہزاروں آتش فشاں کے بیک وقت پھٹنے کے برابر ہو گی۔ یہ آتش فشاں پھٹنے کی صورت میں خود تو تباہی کرے گا ہی لیکن اس سے بھی بڑی تباہی زیر زمین کاربن کے اخراج کی صورت میں ہو سکتی ہے۔Royal Holloway University لندن کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لئے 583 زلزلہ پیما sensors استعمال کئے،  جن کی مدد سے امریکا کے نیچے کھولتی کاربن کا مکمل نقشہ تیار کیا گیا ہے۔ اس نقشے کے مطابق کاربن کا ذخیرہ مغربی امریکہ کے نیچے 350 کلومیٹرکی گہرائی پر واقعہ ہے۔  برطانوی سائنسدانوں کی یہ تحقیق سائنسی جریدے Earth and Planetary سائنس میں شائع کی گئی ہے۔

No comments.

Leave a Reply