پاکستانی حکومت نے 11 ماہ میں 7.43 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا، وزارت خزانہ

پاکستانی حکومت نے 11 ماہ میں 7.43 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا

پاکستانی حکومت نے 11 ماہ میں 7.43 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

حکومت کا قرضوں پر انحصار 4 سال گزرنے کے باوجود بھی کم نہ ہو سکا، ایک سال کے دوران غیر ملکی قرضوں میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، موجودہ حکومت کی جانب سے 11 ماہ کے دوران غیر ملکی اداروں سے 7.43 ارب ڈالر قرض لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران بیرونی قرضوں پر1.16 ارب  ڈالر سود کی مد میں دیا گیا،  حکومت نے چینی بینکوں سے 1سال کے دوران 2 ارب ڈالر کا قرض لیا، وزارت خزانہ کے حکام نے چینی بینکوں سے قرضوں کی تفصیلات اوپن کرنے سے انکار کر دیا۔ غیر ملکی قرضوں کے بارے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے  وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جولائی سے مئی 2017 ء تک غیر ملکی اداروں سے 7.43 ارب ڈالر قرض لیا گیا، صرف چینی بینکوں سے 1 سال کے دوران 2 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا، 1 سال کے دوران بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں 1.16 ارب ڈالر ادا کیے گئے،  اسی طرح مقامی بینکوں کے قرضے 12 ہزار 956 ارب روپے ہو گئے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال مقامی بینکوں سے لیے گئے قرضوں میں 1 ہزار 182 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ حکام نے بتایا کہ 1 سال کے دوران حکومت نے مختلف اداروں کو 3.62 ارب  ڈالر قرض واپس کیا،  ایک سال کے دوران بیرونی قرضہ 3.81 ارب  ڈالر رہا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر Salim Mandviwala نے کہا کہ وزارت خزانہ 4 سال کے غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات پیش کرے،  پرائیویٹ سیکٹر کو قرضوں کے اجرا میں کمی ہو رہی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے استفسار کیا کہ 2016 ء میں پرائیویٹ سیکٹر کو 16 فیصد قرضہ دیا گیا  جبکہ 2017 ء میں پرائیویٹ سیکٹر کو 15۔4 فیصد قرضہ دیا گیا۔ سینٹر Salim Mandviwala نے کہا کہ غیر ملکی امداد کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ اس دوران سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ ایک سال میں غیر ملکی قرضوں میں 18 فیصد اضافہ ہوا۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ حکومت ریکارڈ تعداد میں قرضے لے رہی ہے،  کیا حکومت پر بینکوں سے قرضہ لینے کی حد مقرر کی جائے؟ اسٹیٹ بینک کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت پر کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے اسٹیٹ بینک حکام سے استفسار کیا کہ چینی قرضوں پر کتنا سود ادا کیا گیا۔ اس پر وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ چینی بینکوں سے قرضوں کی تفصیلات ان کیمرہ بریفنگ میں فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ اگر معلومات اوپن ہو جائے تو آئندہ بھی اس حد سے لینے پڑ سکتے ہیں۔اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس معاملے کو آئندہ میٹنگ میں دیکھیں گے جس پر سینیٹ کی خزانہ کمیٹی نے یہ ایجنڈا آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا۔ سینٹر محسن عزیز نے کہا کہ اپٹما کے ٹیکس ری فنڈز رکنے سے معیشت متاثر ہو رہی ہے،  اس کی وجہ سے 150 ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں، اپٹما اراکین سراپا احتجاج ہیں۔ ایف بی آر کے حکام نے کہا کہ اپٹما کے ٹیکس ریفنڈز کا معاملہ مفاہمت سے حل کرنا چاہتے ہیں، اپٹما اور ایف بی آر کے اعداد و شمار مختلف ہیں، اپٹما والوں سے پوچھا ہے کہ 200 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کا نمبر کہاں سے ملا۔ انہوں نے کہا کہ 13 اگست تک اپٹما کے ٹیکس ریفنڈز جاری کرنے کی کوشش کریں گے،  اس مقصد کے لیے اپٹما کو آئندہ ہفتے اجلاس کے لیے طلب کیا ہے۔  کمیٹی کے چیئرمین Salim Mandviwala نے کہا کہ اگر چیئرمین ایف بی آر کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو ان کے خلاف سینیٹ میں تحریک استحقاق پیش کریں گے اور چیئرمین ایف بی آر کے خلاف وزیر اعظم کو بھی خط لکھ سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply