پانامہ عملدآمد کیس کی سماعت مکمل، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

پانامہ عملدآمد کیس کی سماعت مکمل

پانامہ عملدآمد کیس کی سماعت مکمل

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت مکمل ہو گئی ہے، عدالت عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جس کی تاریخ بعد میں دی جائے گی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلہ محفوظ کر لیا، اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آج کیس کی مسلسل پانچویں سماعت کے دوران اہم پیشرفت ہوئی ہے، عدالت عظمی نے رپورٹ کا والیم 10 منگوا کر کھول دیا ہے۔  جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ابھی یہ جلد کسی کو نہیں دکھائیں گے، جلد 10 سے بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم نے جو پراسرار ثبوت اسپیکر قومی اسمبلی کو دیے وہ ہمیں کیوں نہیں دے رہے؟ وزیر اعظم نے ہمارے اثاثے میں اپنے آپ کو بھی شامل کیا تھا؟ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لہروں کے خلاف بھی تیرنا پڑا تو تیریں گے، مدعا علیہان کے بنیادی حقوق کا خیال ہے، آئین اور قانون سے باہر نہیں جائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکلز ہماری نظروں کے سامنے ہیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جس سے کسی کے بنیادی آئینی حقوق کی تلفی ہو۔ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جمع کرانے کے بعد  جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ آج مسلسل پانچویں کیس کی سماعت کر رہا ہے

جس میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ Ishaq Dar   کے وکیل طارق حسن نے بھی دوسری مرتبہ دلائل دئیے۔

جسٹس عظمت نے وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب یہ دسویں جلد آپ کی درخواست پر کھولی جا رہی ہے، ابھی دسویں جلد کسی کو نہیں دکھائیں گے۔

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کا استحقاق ہے وہ کسی کو بھی دکھائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا، خطاب میں کہا تھا بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں، ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کر رہے ہیں،  رپورٹ میں مریم کے بینیفیشل مالک ہونے کا کہا گیا ہے، مریم نواز کی کمپنیوں کا بینیفیشل مالک ہونا کیپٹن صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوتا، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ گوشواروں میں ملکیت کا ذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ کل کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ہوئی تھی،

عدالت نے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ جعلسازی کا کیس ہے، اور میں نے کل کہا تھا اس کی وضاحت ہو گی۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی، اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی۔ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں یہ معمول کا کام ہے چھٹی کے روز نوٹری تصدیق ہو جاتی ہے۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ کی بات نوٹ کر لی کہ ہفتے کے روز بھی سالیسٹر دستیاب ہوتے ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو کاروبار کے لیے وسائل ان کے دادا نے دئیے، سال 2004 ء تک حسن اور حسین کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے۔ بچے اپنے کاروبار کے خود ذمے دار ہیں، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمے داری والدین پر نہیں آ سکتی۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیار ہے؟

سلمان اکرم نے دلائل میں کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا، قطری کو وڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آج آپ نے اچھے دلائل دیئے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیار ہے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہو گا؟   سوال یہ ہے کہ پبلک آفس ہولڈر نے اسمبلی میں کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے، اس کے بعد وزیر اعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات اسپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ Ishaq Dar  کے وکیل طارق حسن نے Ishaq Darکا 34 سالہ ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بڑا بڑا ٹیکس ریکارڈ ہمارے لیے رکھا ہے؟  یہ سارا دن ٹی وی کی زینت بنا رہے گا۔  جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے سوچ رہا ہوں کہ یہ سیکیورٹی والوں سے کلیئر کیسے ہو گیا؟

طارق حسن نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کیا آپ بھی جے آئی ٹی کو فالوکر رہے ہیں؟ Ishaq Darکے وکیل طارق حسن نے دلائل میں کہا کہ عدالت کی جانب سے کافی مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا،  عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں، اپنے جواب میں عدالتی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 5 سال میں اسحاق ڈار کے اثاثے 9 ملین سے 837 ملین کیسے ہو گئے؟ Ishaq Dar نے شیخ نہیان کے 3 خطوط کے علاوہ کوئی دستاویزات نہیں دیں، ملازمت کی شرائط کیا تھیں؟

طارق حسن نے موقف اپنایا کہ مجھے معلوم نہیں وہاں ملازمت سے متعلق کیا کاغذات دیئے جاتے ہیں، جے آئی ٹی نے ایسا کچھ مانگا ہی نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ آپ کا کام تھا کہ لوجیکل دستاویزات ساتھ لف کر کے دیتے جس پر Ishaq Dar کے وکیل نے موقف دیا کہ جے آئی ٹی کے پاس رکارڈ نہیں تھا تو نتائج کیسے اخذ کر لیے؟

طارق حسن کے جواب میں جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کتنی بار کہیں کہ ہم جے آئی ٹی کے نتائج پر فیصلہ نہیں کریں گے۔

طارق حسن نے موقف دیا کہ Ishaq Dar کے خلاف کوئی مقدمہ ہے نہ شواہد، جب ریکارڈ جے آئی ٹی کو دیا گیا تو حوصلہ افزائی نہیں کی گئی،

Ishaq Dar نے گوشواروں میں اپنی غیر ملکی آمدن بھی ظاہر کر دی ہے، Ishaq Dar نے بین الاقوامی آڈیٹر سے آڈٹ کروانے کی پیشکش کر دی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے آپ چاہتے ہیں یہ کیس چلتا ہی رہے اور کبھی ختم نہ ہو؟ آپ کا ایک نقطہ یہ تھا کہ جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا،  ایک منٹ کو حدیبیہ کیس خارج ہونے کو تسلیم کر لیں تو بھی Ishaq Dar خلاف کافی مواد ہے، حقیقت میں آپ اثاثوں میں اضافے پر جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کر سکے، یہ آپ کے خلاف نئی قانونی چارہ جوئی کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

وزیر خزانہ Ishaq Dar کے وکیل طارق حسن نے موقف اپنایا کہ اسحاق ڈار اپنی اسکروٹنی کروا کروا کر تھک چکے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، بلاوجہ احتساب عدالت میں گھسیٹنا قبول نہیں۔ اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا آپ کا موقف ہے کہ حدیبیہ ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، آپ کہتے ہیں کہ یہ ڈرامائی کہانی ہے جو ڈرامے کی طرح ہی ختم ہو جائے؟ تمام تحریری مواد کا جائزہ لیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ Ishaq Dar کے بیٹے نے ہل میٹل کو فنڈز فراہم کیے جس پر طارق حسن نے دلائل دیئے  کہ اس نوعیت کی صرف ایک ہی ٹرانزیکشن تھی، جے آئی ٹی میں Ishaq Dar بطور گواہ گئے تھے، یہاں لگتا ہے ملزم ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ Ishaq Dar جے آئی ٹی میں استحقاق مانگتے رہے، سمجھ نہیں آتا کہ استحقاق کس چیز کا مانگا جا رہا تھا؟

طارق حسن نے موقف اپنایا کہ Ishaq Dar اس ٹرانزیکشن سے مجرم کیسے ہو گئے، انہوں نے جے آئی ٹی سے کوئی بات نہیں چھپائی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے جے آئی ٹی کو شیخ النیہان کے پاس تقرری کا کوئی دستاویزی ثبوت نہ دیا، کیا آپ نہیں جانتے کہ اثاثے بڑھنے کا کوئی ثبوت ہونا چاہیے؟

طارق حسن نے دلائل میں کہا کہ Ishaq Dar نے جے آئی ٹی کو ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ فراہم کیا تھا، جے آئی ٹی کو Ishaq Dar کی پیش کردہ دستاویزات ریکارڈ میں شامل کرنی چاہیے تھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ علی ڈار نے والد Ishaq Dar کو تحفے میں رقم دی،  جے آئی ٹی کے مطابق Ishaq Dar نے اس رقم پر ٹیکس ادا نہیں کیا، 5 سال میں Ishaq Dar کے اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ حیران کن ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو جواب میں کہا کہ نواز شریف نے ایف زیڈ ای کمپنی کو ظاہر نہیں کیا،  وزیر اعظم عدالت اور قوم کے سامنے صادق اور امین نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ورک پرمٹ اور چیئرمین ہونا بھی چھپایا، نواز شریف نے تنخواہوں کی رسیدیں بھی چھپائیں، اس پر عدالت نے کہا کہ دوسری طرف کا موقف ہے کہ تنخواہ کبھی نہیں لی گئی؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تنخواہ وصول کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا اگر عوامی نمائندگی ایکٹ کا اطلاق ہو تو کیا یہ معاملہ الیکشن کمیشن کو نہیں جائے گا؟ کیا یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ الیکشن کے بعد بھی ایف زیڈ ای کمپنی کو ظاہر نہیں کیا گیا، اثاثے ظاہر نہ کرنا آرٹیکل 62 اور 63 کے زمرے میں آتا ہے۔ نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ لندن فلیٹس کی خریداری کے وقت بچے کم عمر تھے۔ اس وقت نواز شریف کے بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ حسین نواز نے نواز شریف کو ایک ارب روپے سے زائد کے تحائف دیے۔ پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ تمام رقم نواز شریف کو ہل میٹل کے ذریعے ملی، ہل میٹل سے ملنے والی رقم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے، یہ ناقابل یقین ہے کہ ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نواز شریف کو مل گیا۔

No comments.

Leave a Reply