وزیر اعظم پاکستان نواز شریف تاحیات نااہل، سپریم کورٹ کے ججوں کا متفقہ فیصلہ

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف تاحیات نااہل

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف تاحیات نااہل

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر فوری عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔  عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے۔ نواز شریف کو بینچ کے تمام ججوں نے متفقہ طور پر نااہل قرار دیا۔ ترجمان وزیر اعظم ہائوس کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر وزیر اعظم کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف، حسن، حسین، مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ Ishaq Dar  کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے جبکہ 6 ہفتے میں نیب کو ریفرنس بھیجا جائے، جس کا فیصلہ 6 ماہ میں کیا جائے، وزیر اعظم کے خلاف لندن فلیٹس پر بھی ریفرنس دائر کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اقامہ وزیر اعظم کی نااہلی کی وجہ بنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاناما عملدرآمد بینچ کے تینوں ججز نے نااہلی کی الگ، الگ وجوہات دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف نظرثانی کی درخواست پر غور کریں گے جبکہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی قانون نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن رہنما وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب، عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید احمد، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق، عارف علوی، شیریں مزاری، شفقت محمود، بابر اعوان، فواد چودھری،  ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما میاں عتیق کے علاوہ دیگر سیاسی رہنما بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے تاہم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سپریم کورٹ نہیں آئے۔ پاناما کیس کے فیصلے کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے سیکیورٹی کا خصوصی پلان تشکیل دیا گیا تھا  اور اہم مقامات ریڈ زون اور سپریم کورٹ کے اطراف پولیس، رینجرز اور ایف سی کے 3 ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے گرد حفاظتی رکاوٹیں اور خاردار تاریں لگائی گئی تھیں اور درخواست گزاروں کو اپنے ساتھ غیر متعلقہ افراد کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ریڈ زون میں موجود دفاتر میں کام کرنے والے افراد دفتری ریکارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔

واضح رہے کہ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ 3 رکنی عملدرآمد بینچ نے 21 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔ نوازشریف پارٹی عہدہ بھی نہیں رکھ سکیں گے اسمبلی رکنیت سے نااہلی کے بعد نوازشریف پارٹی صدر بھی نہیں رہ سکیں گے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت اسمبلی رکنیت سے نااہل شخص پارٹی عہدہ بھی نہیں رکھ سکتا۔

واضح رہے کہ جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم نواز شریف ان کے بچوں حسین، حسن اور مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ Ishaq Dar پر عائد الزامات کی مزید تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا جبکہ دیگر 2 فاضل ججز، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اپنے اختلافی نوٹ کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف کو عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دینے کی رائے دی تھی۔ فاضل ججز کی اکثریت کے فیصلہ کی روشنی میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء  کی سربراہی میں اسٹیٹ بنک کے افسر عامر عزیز، نیب کے عرفان نعیم منگی، ایس ای سی پی کے بلال رسول، ایم آئی کے بریگیڈیئر کامران خورشید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان سعید پر مشتمل 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے 2 ماہ کے اندر اندر تحقیقات مکمل کر کے 10 جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں میں وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے  خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی تھی،  اس رپورٹ پر فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فاضل عدالت نے 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کا سنایا جانے والا آج کا فیصلہ ملک کی سیاسی، آئینی اور قانونی افق پر گہرے اثرات مرتب کریں گا۔

No comments.

Leave a Reply