نواز شریف کا سیاسی عروج و زوال

ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نواز شریف کو پہلی حکومتی ذمہ داری ملی،  جو پنجاب کے وزیر خزانہ کی تھی

ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نواز شریف کو پہلی حکومتی ذمہ داری ملی، جو پنجاب کے وزیر خزانہ کی تھی

نیوز ٹائم

سیاست میں عروج و زوال نواز شریف کے ساتھ شروع سے آخر تک رہے، لمحوں میں فرش سے عرش اور عرش سے فرش تک کا سفر ایک دور کا نہیں۔ لاہور کے کاروباری گھرانے کے چشم و چراغ نواز شریف نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو آگے سے آگے نکلتے گئے،  سیاسی کیریئر ان کے لیے رکاوٹوں والی دوڑ ضرور ثابت ہوا لیکن ہر رکاوٹ کو عبور کر کے اگلی بار وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھرے۔

ضیاء الحق کے دور اقتدار میں نواز شریف کو پہلی حکومتی ذمہ داری ملی،  جو پنجاب کے وزیر خزانہ کی تھی، یہ 1985 ء سے 88 ء تک کا دور تھا، یہاں سے اقتدار نواز شریف کے سر پر ایسا بیٹھا کہ پھر نواز کو نوازتاً ہی رہا۔ اس کے بعد نواز شریف پہلے پنجاب کے نگراں وزیر اعلی اور پھر منتخب وزیرا علی بنے،  نواز شریف 1990ء  کے انتخابات میں کامیاب ہو کر پہلی بار وزیر اعظم بنے،  یہاں صدر غلام اسحاق خان نے 58 ٹو بی کی تلوار سے انہیں وزارت عظمی سے ہٹا دیا۔ نواز شریف اپنی برطرفی کے خلاف عدالت میں جنگ جیت کر بحال ہوئے  لیکن پھر بھی اقتدار کی گاڑی ڈھائی سال بھی نہ چل سکی اور غلام اسحاق کے ساتھ کشمکش اس حد تک بڑھی کہ صدر اور وزیر اعظم دونوں ہی گئے۔

اس کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر رہے اور 97 ء کے انتخابات میں پھر بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو گئے،  یہاں جنرل مشرف ان کی رفتار میں رکاوٹ بنے اور نواز شریف پھر مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی وزارت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔ طیارہ سازش کیس چلا، ایوان اقتدار سے نکالے جانے پر نواز شریف نے اڈیالہ جیل بھی دیکھی،  عمر قید کی سزا ہوئی جلا طنی ہوئی اور شریف خاندان لگ بھگ 8 سال تک ملک بدر رہا۔ اس ملک بدری میں 2006ء میں لندن میں میثاق جمہوریت ہوا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں ،

2007 میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو بھوربن میں میثاق جمہوریت پر عمل کے عہد و پیماں ہوئے اور زرداری نے بھی رائے ونڈ میں حاضری دی اور میاں شریف کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ 1999 میں نواز حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد 2 الیکشن ہوئے اور 5،5 سال کی اسمبلیوں نے مدت پوری کی، لیکن نواز شریف اسمبلیوں میں نہیں تھے۔ پھر 2013 ء کے الیکشن میں ن لیگ نے دوبارہ میدان مار لیا اور نواز شریف 14 سال بعد اسمبلی میں واپس اسی سیٹ پر آ کر بیٹھے جہاں سے ا نہیں برطرف کیا گیا تھا۔ پھر پاناما کا ہنگامہ انہیں لے ڈوبا، اقتدار کی کشتی میں ایسا سوراخ ہوا کہ بڑھتا بڑھتا دو تہائی اکثریت کے ٹائی ٹینک کو لے ڈوبا،  نواز شریف پھر 5 سال کی مدت تک پہنچنے میں ناکام رہے، لیکن اس بار 58 ٹو بی کی تلوار تو

لیکن آئین کا آرٹیکل 62،63 پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور اسی نے نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں آخری کیل ٹھونک دی۔ بقول شیخ رشید کرپشن کا تابوت سپریم کورٹ سے نکل آیا لیکن 58 ٹو بی کی جگہ 62،63 کی برہنہ تلوار کی کاٹ ابھی تک موجود ہے،  دیکھنا یہ ہو گا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کو گھر بھیجنے کی یہ تلوار اب بھی سروں پر لٹک رہی ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

No comments.

Leave a Reply