شاہد خاقان عباسی عبوری وزیرِ اعظم، جبکہ شہباز شریف متبادل وزیر اعظم نامزد

شاہد خاقان عباسی عبوری وزیرِ اعظم، جبکہ شہباز شریف متبادل وزیر اعظم نامزد

شاہد خاقان عباسی عبوری وزیرِ اعظم، جبکہ شہباز شریف متبادل وزیر اعظم نامزد

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف کو متبادل وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف کے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے تک شاہد خاقان عباسی عبوری وزیر اعظم ہوں گے۔ دوسری جانب صدر مملکت نے یکم اگست کو 3 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا جس میں وزیر اعظم پاکستان کا انتخاب ہو گا۔ اتوار 3 بجے سہ پہر تک سیکریٹری قومی اسمبلی کے دفتر سے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کاغزات نامزدگی حاصل کیے جا سکتے ہیں  جو پیر کو 2 بجے تک وصول کیے جائیں گے اور 3 بجے سپیکر قومی اسمبلی کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کریں گے۔ میاں نواز شریف نے پارلیمانی اجلاس سے خطاب کے دوران اپنے بعد شہباز شریف کو بطور وزیرِ اعظم نامزد کرتے ہوئے جماعت سے ان کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات لڑنے کے بعد شہباز شریف وزیرِ اعظم بنیں گے تب تک کے لیے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کرتا ہوں۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما کیس کے متفقہ فیصلے میں نہ صرف وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا بلکہ نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا موقف تھا کہ انھیں آئندہ انتخابات تک پارٹی کو لے کر جانا ہے  اور اس مقصد کے لیے وہ ایسی متبادل قیادت چاہتے ہیں جو پارٹی کو اکٹھا رکھ سکے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنے متبادل وزیر اعظم کے طور پر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا نام پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا لیکن چونکہ شہباز شریف رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں اس لیے پہلے اجلاس میں اس نام پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا  کہ شہباز شریف کے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے تک وزیر اعظم کسے بنایا جائے گا۔ اجلاس میں موجود بعض مسلم لیگی رہنمائوں کے مطابق نواز شریف اس بات پر بہت یکسوئی کے ساتھ گفتگو کرتے اور مشورے سنتے رہے کہ کس طرح پارٹی کو فعال رکھا جائے۔ اس حوالے سے ایک تجویز جسے سب سے زیادہ پذیرائی ملی وہ نواز شریف اور اہلخانہ کی فوری طور پر بذریعہ سڑک لاہور جانے کی تھی۔ اس تجویز کے پیچھے حکمت یہ بتائی گئی کہ اس طرح سے مسلم لیگ اس ‘غیر منصفانہ’ فیصلے کے خلاف عوامی احتجاج بھی کر سکے گی اور عوام کو بھی متحرک کیا جا سکے گا۔ یہ تجویز تو سیکیورٹی اور بعض دیگر خدشات کے باعث مسترد کر دی گئی لیکن اس کے بعد بھی بہت سی تجاویز آئیں جن کا مرکز یہی نکتہ رہا کہ پارٹی کو اکٹھا رکھا جائے۔ مسلم لیگ کے معاملات کو قریب سے جاننے والے صحافی عارف نظامی کہتے ہیں کہ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد  نواز شریف کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پارٹی کے معاملات کو کسی صورت ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ نواز شریف اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے پارٹی کو یکجا رکھنا ان کے مسقتبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ اس بات پر خاصے کلئیر ہیں کہ حکومت تو چلی گئی ہے لیکن پارٹی ہاتھ سے نہیں جانی چاہیے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جس دوران شہباز شریف کی نامزدگی کے بارے میں بات چل رہی تھی تو چوہدری نثار اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ انھوں نے جانے سے پہلے نواز شریف سے کمر درد کے باعث اجلاس سے جانے کے لیے اجازت تو لی لیکن ان کے درمیان سرد مہری بہت نمایاں طور پر محسوس کی گئی۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار علی کے اجلاس سے جانے کے بعد اس کے تنائو میں کمی محسوس کی گئی اور ایک موقع پر تو قہقہے بھی بکھر گئے جب نواز شریف نے جذباتی انداز میں تقریر کرنے والے ایک رہنما کو روکا جو نواز شریف کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔

No comments.

Leave a Reply