پاکستان میں خاندانی سیاست کا تجزیہ

خاندانی سیاست کے نئے ابھرتے ہوئے سیاستدان مریم نواز، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو

خاندانی سیاست کے نئے ابھرتے ہوئے سیاستدان مریم نواز، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو

نیوز ٹائم

مریم نواز اور Hamza Shahbaz جو نواز شریف اور شہباز شریف کے ممکنہ سیاسی جانشین سمجھے جاتے ہیں دونوں نے شریف خاندان میں سنگین اختلافات کے تاثر کو مسترد کر دیا ہے، تاہم آنے والے دنوں کا ماحول یہ بات درست یا غلط ہونا طے کر دے گا۔ Maryam Nawaz  آپس میں اختلافات کی قیاس آرائیوں کے تناظر میں اپنے چچا شہباز شریف کے گھر گئیں۔ این اے 120 لاہور کے ضمنی انتخاب میں Kalsoom Nawaz کی انتخابی مہم سے Hamza Shahbaz  غیر حاضر رہے۔ چاہے شریف ہوں یا بھٹو سیاست میں نمایاں خاندانوں کی بڑی الجھن یہ رہی ہے کہ ان میں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پاکستان میں خاندانی سیاست نے جمہوریت یا سیاست کو نقصان پہنچایا۔ ان میں نظام کا عدم تسلسل، خوف اور عدم تحفظ کا احساس بھی نمایاں عناصر رہے۔ کسی رہنما کے ہوس اقتدار کے نتیجے میں مقبول عام جماعتوں کو تقسیم اور منتشر ہوتے دیکھا گیا ہے۔ اگر جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع ملا تو خاندانی سیاست باقی نہیں بچے گی۔

گو کہ عمران خان کے خاندان کا بیٹوں سمیت کوئی بھی فرد سیاست میں نہیں ہے لیکن 1996ء میں تحریک انصاف کی تخلیق کے بعد سے وہی اس کے چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی میں اسفند یار ولی تیسری بار پارٹی سربراہ منتخب ہوئے لیکن ان کا کوئی مدمقابل نہیں رہا جس سے ملک کی سیاسی جماعتوں میں غیر جمہوری ذہنیت یا انداز فکر کا اظہار ہوتا ہے۔ جہاں اندرونی جماعت انتخابات کو خانہ پری کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ اگر انتخابی عمل میں رکاوٹ نہ ہو تو خاندانی سیاست بھی پروان نہ چڑھ سکے۔ سیاسی خاندانوں کی نوجوان نسل کو اپنے خاندانی پس منظر کی بنیاد پر پروان چڑھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر بلاول بھٹو کو اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی مقبولیت کے قریب پہنچنے میں بھی بڑی دقت کا سامنا ہے۔ Maryam اور Hamza کے لئے بھی وراثت کو لے کر آگے بڑھنا مشکل ہو رہا ہے  لہذا اب وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں خاندان کے ایک رکن سے دوسرے کو منتقل ہونے کے بجائے اصلاحات لائیں۔ شخصی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جائے۔ خاندان کے کسی رکن کا سیاست میں آنا کوئی غلط بات نہیں لیکن مستقبل میں انہیں محض نعروں یا بیٹے یا بیٹی ہونے کی بنیاد پر پارٹی کی باگ ڈور نہیں دی جا سکتی۔  ہمارے معاشرے میں سیاسی خاندانوں کی بالادستی ہونے کی وجہ جمہوریت اور اس کے اصولوں کی نفی رہی ہے اسی طرح صرف خاندانی سیاست کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ جن جماعتوں میں خاندانوں کی بالادستی نہیں ہے  وہ بھی ہوس اقتدار و اختیار میں تقسیم اور گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔

پاکستان کا قیام جمہوری اصولوں پر طویل جدوجہد کے نتیجے میں عمل میں آیا اس تحریک کی Quaid-i- Azam نے اگلی صفوں سے رہنمائی کی۔ مسلم لیگ کی بنیاد خاندانی سیاست پر نہیں رکھی گئی لیکن یہ جماعتQuaid-i- Azam کے انتقال اور شہید ملت کے قتل کے بعد ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئی۔ Zulfqar Ali Bhato کا سیاست میں داخلہ خاندانی پس منظر کی وجہ سے نہیں ہوا۔ وہ 1960ء  کی دہائی میں سابق صدر Ayub Khan کی کابینہ میں جونیئر وزیر کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ سیاست میں بھٹو کا خاندانی ورثہ ان کی حکومت برطرف اور مارشل لا لگانے کے بعد متعارف ہوا۔ پہلے تو بھٹو مرحوم نے بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد کو پیپلز پارٹی کا اپنی جگہ قائم مقام چیئرمین مقرر کیا لیکن پارٹی کے اندر جاگیرداروں کی شدید مخالفت کے باعث خود شیخ رشید احمد کے مشورے پر بیگم Nusrat Bhato پیپلز پارٹی کی قائم مقام سربراہ بنا دی گئیں۔بھٹو کو پھانسی دیئے جانے سے ان کے خاندان کو بڑے پیمانے پر عوامی ہمدردیاں حاصل ہوئیں پھر بے نظیر بھٹو اپنے والد کی وراثت کو لے کر آگے چلیں۔ قید و بند اور مظالم جھیلے، صعوبتیں برداشت کیں لیکن 2007ء  میں وہ بھی نہایت بے رحمی سے قتل کر دی گئیں، 10 سال گزر گئے پیپلز پارٹی اس صدمے سے آج تک سنبھل نہ سکی۔ ان کے بیٹے Balawal کے لئے اپنی ماں کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھانا مشکل ہو رہا ہے۔

شریف خاندان اپنی خواہش پر نہیں بلکہ باور کرا کر سیاست میں لایا گیا۔ میاں شریف مرحوم کبھی سیاست میں نہیں رہے لیکن بچے ان کی خواہش کے برخلاف سیاست میں لائے گئے  لہذا مسلم لیگ (ن) کے اندرونی بحران کو سمجھنا مشکل نہیں ہو گا لیکن خاندان میں اختلافات اور مسائل 2000ء کے بعد سے ہی پیدا ہونا شروع ہوئے  جب وہ جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیئے گئے تھے۔ وہ جو شریف برادران اور ان کی کرپشن پر تنقید کرتے ہیں، کبھی یہ بنیادی سوال نہیں اٹھایا کہ انہیں سیاست میں کون لے کر آیا۔ کیوں ایک کاروباری خاندان جس کا 1970ء کی دہائی تک سیاست سے کوئی واسطہ نہیں رہا اسے کیوں سیاست میں دھکیلا گیا تاکہ ایک مقبول عام سیاسی جماعت کا توڑ کیا جا سکے۔ جب ایک غیر سیاسی کاروباری خاندان کو سیاست میں لایا گیا تو اس نے سیاست ہی کو نقصان پہنچایا۔ پاناما Leaks کے قریبی جائزے سے شریف خاندان کے اندر مسائل بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ نواز شریف، Maryam، حسین، حسن، کیپٹن صفدر اور ISHaq ڈار ہی کو کیوں مسائل اور مصائب کا سامنا ہے؟ الزامات ان ہی کے اثاثوں کے گرد گھومتے ہیں۔  سیاسی ورثہ لے کر چلنا نواز شریف کے لئے آسان نہیں کیونکہ شریف برادران نے اپنی مشترکہ جدوجہد ہی سے مقام حاصل کیا ہے۔

شہباز شریف کو جو لوگ جانتے ہیں، ان کی رائے یہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں بڑے بھائی ہی فیصلہ کریں لیکن ساتھ ہی بیٹے Hamza سے کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ نازک فیصلہ نواز شریف ہی کریں گے لیکن بظاہر وہ اپنی معزولی اور نااہلی کی وجہ سے مجروح اپنے وقار کی بحالی چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ورثے Maryam کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی پریشان ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف کے حامی سخت گیر رہنمائوں کا موقف جو چاہتے ہیں کہ معزول وزیر اعظم کوئی سخت رویہ اختیار نہ کریں دراصل وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور Maryam اپنا سیاست سے خروج قبول کر لیں۔ نواز شریف کا سیاسی مستقبل بڑی حد تک نیب کیسز کے نتائج پر ہے۔

کچھ حلقوں کی رائے میں کسی مفاہمت، سودے بازی یا این آر او کے نتیجے میں ان کی سیاست میں واپسی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں Maryam کی شہباز شریف کے ساتھ Hamza کی موجودگی میں ملاقات سیاسی اہمیت کی حامل ہے۔ شہباز شریف کی جانب سے  Maryam کو سادہ سا پیغام دیا گیا وہ یہ کہ متحد ہو کر ہی جمے رہ سکتے ہیں۔ تقسیم ہوئے تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف پس منظر میں جا کر شہباز شریف اور Hamza کو آگے بڑھنے دیں گے؟ شہباز شریف یقیناً اپنے بھائی سے بغاوت نہیں کریں گے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ محاذ آرائی کی سیاست کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی میعاد مکمل نہیں کر سکے گی اور سینیٹ انتخابات میں بھی اپ سیٹ ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی خاندان کے ارکان کی سیاست میں دلچسپی جمہوری طور پر کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ مضبوط جمہوری معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن اس کا بھی ایک معیاری اصول ہے جس کا بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔ دور حاضر میں سیاست نے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے حتی کہ سیاسی خاندانوں کے بچے بھی سیاست سے واقف نہیں۔ یہ لوگ پارٹی ٹکٹ اور عہدوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اگر سسٹم کو رائج اور کام کرنے دیا گیا تو وراثت کی سیاست پھر باقی نہیں بچے گی۔

No comments.

Leave a Reply