امریکہ اقتصادی امداد کا لالچ دے کر پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے

یو ایس وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف

یو ایس وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی وزیر خارجہ Rex Tillerson 20 سے 27 اکتوبر تک 5 ممالک کا دورہ کرین گے، جن میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ دورہ پاکستان کے بعد وہ بھارت بھی جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ اقتصادی امداد کا لالچ دے کر پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ Rex Tillersonن کے دورے کا مقصد پاکستان پر ایک بار پھر بھارت کی بالادستی قبول کرنے کے لیے دبائو بڑھانا اور پاک فوج کو افغانستان میں آپریشن کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ ذرائع کے بقول امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان کے دورے کے لیے رضامند کرنے میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کا بڑا کردار ہے، جو امریکہ میں یہ وعدہ کر کے آئے ہیں کہ امریکہ اہداف کی نشاندہی کرے، وہاں کارروائی کی جائے گی، لیکن آپ نواز شریف کو کسی نہ کسی طرح بحال کرا دیں۔

 وفاقی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کو اقتصادی امداد کا لالچ دیا ہے اور کہا ہے کہ جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے، انہیں پاکستان بھی دہشت گرد سمجھے۔ ذرائع کے مطابق کینیڈین جوڑے کی رہائی حقانی گروپ کے ایک اہم رہنما کے رہائی کے بدلے عمل میں آئی تھی، لیکن کینیڈین جوڑا اپنے وطن پہنچ گیا ہے اور حقانی گروپ کے اس رہنما کو پھانسی پر جڑھانے کی تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے حوالے سے جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے Ummat سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستان آپریشن کرے اور افغان طالبان کا خاتمہ کرے۔ اب امریکہ چاہتا ہے کہ وہ ہمارے مقابلے پر اتر آئیں۔ جنرل بیگ نے کہا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکہ کو بہت سی یقین دہانی کرا کے آئے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں امریکہ کی مرضی اور خواہشات کے مطابق ترامیم کرائیں گے، لیکن امریکہ نواز شریف کو بحال کرا دے۔ خواجہ آصف نے اس سلسلے میں پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ اس کے بعد سعودی حکام نے امریکہ سے بات کی اور اب امریکہ وزیر خارجہ اپنی شرائط کے ساتھ مدد کو پہنچ رہے ہیں۔ امریکی، افغانستان میں اپنی شکست نہیں تسلیم کرنا چاہتے، لیکن وہ افغانستان سے نکلنا بھی چاہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مسلسل کمک پہنچا رہا ہے۔  جنرل (ر) بیگ کا کہنا تھا کہ اس بار سردیوں میں طالبان امریکیوں کے خلاف بڑے حملے کریں گے۔ لہذا امریکی چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ان کے لیے کام کرے۔ لیکن پاکستان کو ایسا کوئی بھی مطالبہ مسترد کر دینا چاہیئے۔

عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ ہم نے امریکہ کو اپنی پالیسی بتا دی ہے۔ اس سلسلے میں پہلا بیان جنرل باجوہ کا تھا۔ یہی پیغام وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے بھی پہنچایا۔ امریکہ کے 20 ملین ڈالر ہماری کاوشوں کا نعم البدل نہیں۔ امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر پاکستان 123 ارب ڈالر کا نقصان کر چکا ہے۔ افغان قوم بھی مذاکرات کی خواہشمند ہے۔ لیکن امریکہ نے چار فریقی مذاکرات کو ملا اختر منصور کو قتل کر کے سبوتاژ کیا تھا۔ امریکہ اور افغان حکومت، پاکستان سے ملا برادر کو مانگ رہی ہے، جس کو پاکستان نے رہا کر دیا تھا۔ ان کے اس بیان سے طالبان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ انہوں نے پاکستان ے ناتا توڑ کر روس، چین اور ایران سے رشتہ جوڑ لیا۔ اب یہ ممالک انہیں پناہ بھی دیتے ہیں اور انہیں امریکہ سے لڑنے کے لیے اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کے بقول پاکستان کے ساتھ طالبان کے اعتماد کو جو تازہ ترین ٹھیس پہنچی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ کینیڈین جوڑے کی رہائی کے بدلے جس طالبان رہنما کو رہا کرنا تھا اب اس کی پھانسی کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی امریکہ کے ساتھ جوائنٹ آپریشن نہیں کرے گا۔ لیکن امریکہ کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کو ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دینا چاہیے۔ کیونکہ ان حملوں میں بے گناہ لوگ ہی مارے جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نئے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔

عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے ہم ہر معاملے میں امریکہ کی بات مانتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن اب جبکہ امریکہ نے بھارت کیس اتھ Strategic Partnership کو دفاعی پارٹنرشپ کی شکل دے دی ہے تو ہمارے پاس یہ سنہری موقع ہے ہم امریکہ جو جتا دیں کہ ہم اب افغانستان میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ انہوں نے افغانستان میں بھارت کو جگہ دی ہے۔ دوسری جانب اب جبکہ پاکستان کے دفاعی تعاون کے راستے میں چین اور روس کے ساتھ کھل رہے ہیں تو امریکہ کے ساتھ دفاعی معاملات میں تعاون کا کوئی معاہدہ اس اعتماد کو دھچکا پہنچائے گا۔ پاکستان کو ڈرون حملوں پر سخت موقف اپنانا چاہیے۔ امریکہ، افغانستان میں جنگ نہیں جیت سکتا، لیکن اسے معلوم ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ اس جنگ سے باہر بھی نہیں نکل سکتا۔ امریکہ، پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے لیکن ہمیں بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح امریکہ، افغانستان میں کامیابی نہیں حاصل کر سکا ہے، ہم بھی افغانستان میں داخل ہو کر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ جس طرح پاکستان نے افغان جہاد کے بعد امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا دیا تھا۔ اب پاکستان، افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کر کے دنیا میں کئی نئی سپر پاورز کو ابھرنے کا موقع دے گا۔ افغانستان میں جنگ کے ذریعے امن نہیں قائم ہونے والا بلکہ مذاکرات ہی اس کا حل ہیں۔ پاکستان میں آنے والے امریکی وزیر خارجہ کو یہی پیغام دینا چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply