ڈونلڈ ٹرمپ پر جارج بش کی تنقید

امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ

نیو یارک ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے، جنھیں نائن الیون کے حوالے سے ایک تاریخی اہمیت حاصل ہو گئی، گزشتہ روز موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کارکردگی پر کڑی تنقید اور نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کے اقدامات سے امریکا کی جمہوریت کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں اکٹر پن تعصب اور ہٹ دھرمی پائی جاتی ہے جبکہ عدم رواداری نمایاں ہے۔  نیو یارک میں تقریر کرتے ہوئے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہمارے ملک کی سیاست سازشی تھیوریوں کی شکل اختیار کر گئی ہے کیونکہ اصل حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا براہ راست نام نہیں لیا  البتہ ان پر تمام تر تنقید انتظامی امور کے حوالے سے کی جس کا اصل ہدف ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے۔ سابق صدر بش نے کہا کہ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیاں ملک کے کروڑوں ووٹروں کے خلاف سازش کے مترادف ہیں۔ جارج بش نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کے ساتھ سلوک اس قدر بدسلوکی کے مترادف ہے جسے توہین مذہب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ جارج بش کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے موقف کو آسانی سے دشمنی کی شکل میں بدلا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پیش رو ڈیمو کریٹک صدر باراک اوباما سے یکسر الٹ ہیں جو کہ رکھ رکھا کا بطور خاص خیال رکھتے تھے لیکن ٹرمپ اس حوالے سے بے حد غیر محتاط ہیں۔ جارج بش نے کہا موجودہ دور میں ایسا لگتا ہے جیسے قومیت کا تصور ذاتیات میں تبدیل ہو چکا ہے جس کا ملک کے لیے کسی فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہو گا۔ صدر بش کی تنظیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ صدر بش کا تعلق امریکا کی ریپبلکن پارٹی سے ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہے  یوں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے قد آور لیڈر بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور ان کے طرز عمل سے نالاں نظر آتے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت خاصی زیادہ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکا کے اس امیج کو متاثر کیا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ امریکا پناہ گزینوں کا ملک ہے۔ صدر ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کا مقصد امریکا میں غیر ملکیوں خصوصاً مسلم ممالک کے باشندوں کو آنے سے روکا جائے۔  اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اسے بھی دنیا میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا  یہی وجہ ہے کہ امریکا کی قدامت پرست پارٹی میں بھی ان کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی مخالفت جس طرح سے بڑھ رہی ہے اس سے یہی نظر آتا ہے کہ آنے والے وقت میں ریپبلکن پارٹی کے اندر بڑی تقسیم پیدا ہونے والی ہے اس تقسیم کا صدر ٹرمپ کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply