مائنس ایم کیو ایم فارمولا (تجزیہ)

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما پاک سر زمین  میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے شدید دبائو میں ہیں

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما پاک سر زمین میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے شدید دبائو میں ہیں

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

بظاہر لگتا ہے Muttahida Qaumi Movement پاکستان گرنے والی ہے۔  لیکن شہری سندھ کی مستقبل کی سیاست پر رونما اس کی سیاسی اثرات نہایت تباہ کن ہوں گے۔ فطری طور پر اس سے Pak Sarzameen Party (پی ایس پی) کے لئے گنجائش پیدا ہو گی۔  MQM جو کئی بحرانوں سے گزری لیکن لگتا ہے وہ 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد اور 22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی کے نشریاتی خطاب کے اثرات بد سے باہر نہیں آ سکی ہے۔ جبکہ ڈرائی کلیننگ کی دکان یا فیکٹری MQM کی گند دھونے میں مصروف ہے۔ MQM پاکستان کے رہنما جو پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے شدید دبائو میں ہیں یا ان پر دونوں کو ضم کر کے نیا نام اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پہلی بار انہوں نے دبائو کے حربے جاری رہنے پر پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی، پی پی پی، پی ٹی آئی، Jameet-e-Islami  یا بالآخر MQM لندن کے زوال کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟ 22 اگست کے واقعہ اور MQM پاکستان کے MQM لندن سے فاصلہ اختیار کرنے کے بعد سے جب MQM پاکستان کو علیحدہ جماعت قرار دیا گیا، اسے یہ بھی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ پی ایس پی میں ضم ہو جائے۔ لیکن پارٹی رہنمائوں کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا۔ جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں نے MQM پاکستان کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اس سے یہ قیاس کیا گیا کہ انہیں Nine Zero کے بغیر اپنا ہیڈ کوارٹر واپس مل جائے گا۔  لیکن اب تک اس حصول میں ناکام ہی رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ MQM اور haqparast جیسے الفاظ اور انتخابی نشان پتنگ ناقابل قبول ہوں گے؟ ایک مرحلے پر MQM پاکستان نے پی ایس پی کے ساتھ انضمام پر غور شروع کر دیا تھا۔سابق گورنر سندھ ڈاکٹر Ishrat-ul-Ebad نے ڈاکٹر Farooq Sattar کو بتایا تھا کہ ایسا کرنا تباہ کن ہو گا  اور نتیجتاً سابق گورنر بھی اپنی مضبوط پوزیشن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ MQM پاکستان کی جانب سے مخصوص حلقوں کا اعتماد کھو دینے کی تین وجہ ہیں۔ اول Waseem Akhtar Mayor Karachi کے منصب کے لئے نامزد کرنا۔ دوئم Shahid Khaqan Abbasi کو وزارت عظمی کے لئے اعتماد کا ووٹ دینا اور سوئم آئینی ترمیم کے دوران Mian Atiq کے ووٹ پر مبینہ ڈبل گیم، اس ترمیم کی بدولت ہی Nawaz Sharif نااہل قرار دیئے جانے کے باوجود پارٹی صدر کے انتخاب کے لئے اہل ٹھہرے۔  جبکہ MQM پاکستان کو کراچی اور حیدر آباد کے لئے ترقیاتی فنڈز کے حصول کی توقع ہو چلی، جیسا کہ وزیر اعظم اور گورنر سندھ نے وعدہ کیا۔ لیکن مخصوص حلقوں کی مزاحمت کے باعث فنڈز کا حصول اتنا آسان نہیں، میئر عہدے کے لئے ان حلقوں کی جانب سے وسیم اختر کا نام مسترد کر دیا گیا تھا۔MQM پاکستان نے مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریب آنے کی کوشش کی لیکن مخصوص حلقوں نے اسے اچھا نہیں لیا۔  ڈاکٹر Farooq Sattar کے لئے معاملات بگڑتے چلے گئے۔ ایک طرف پی ایس پی اور Mustafa Kamal کیلئے مذکورہ حلقوں میں گرم جوشی اور خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ آئندہ مہینوں میں ان کا کردار پھیل جائے گا۔ مزید ارکان قومی و صوبائی اسمبلی پی ایس پی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے خود فیصلہ کیا یا انہیں کہہ دیا گیا کہ وہ کسی کو اپنی جماعتوں سے منحرف ہونے پر مجبور نہ کریں۔

پی ایس پی کو MQM  کے روایتی حلقوں کی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔ لیکن Mustafa Kamal ، ڈاکٹر Ishrat-ul-Ebad کو اکھاڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ جنہیں ایک وقت اسٹیبلشمنٹ کا مکمل اعتماد حاصل رہا تھا۔ وہ اب بھی ان کی گڈبک میں ہیں۔ محض اس لئے کہ انہوں نے MQM Pakistan اور پی ایس پی کے انضمام کو روکا۔ ڈاکٹر Ishrat-ul-Ebad کبھی Mustafa Kamal کے ساتھ تنازعے میں ملوث نہیں ہوئے اور بالآخر اپنی مضبوط پوزیشن کھو کر دبئی میں سکونت اختیار کر لی۔ لیکن وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے انضمام کا فارمولا نہیں چلے گا۔ کیونکہ ووٹرز کی نظروں میں پی ایس پی اسٹیبلشمنٹ کی کنگز پارٹی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر Ishrat-ul-Ebad شہری سندھ کے ممکنہ گیم پلان کے حوالے سے اب بھی رابطوں میں ہیں۔ MQM Pakistan آئندہ عام انتخابات تک بحیثیت جماعت بچ جاتی ہے اور اگر نہیں تو اسے پی ایس پی سے تبدیل کر دیا جائے گا۔ لیکن پارٹی رہنمائوں کے لئے دبائو برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ واقعہ 22 اگست کے بعد MQM Pakistan کو متعلقہ حلقوں سے مثبت جواب نہیں ملا۔ گو کہ ان حلقوں کو بڑی حد تک یقین ہے کہ MQM Pakistan کی اعلی قیادت MQM London کے ساتھ رابطوں میں نہیں ہے۔ جسے خود بھی Altaf Hussain سے Nadeem Nusrat اور Wasia Jalil کی جانب سے دوری اختیار کرنے کے بعد مسائل کا سامنا ہے۔ 22اگست 2016ء کے واقعہ کے MQM Pakistan کو بعض حلقوں نے پی ایس پی میں ضم ہو جانے کا مشورہ دیا۔  بعد ازاں یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ کوئی نیا نام بھی اختیار کر لیں۔

ڈاکٹر Farooq Sattar اور ان کے رفقا کے خیال میں MQM Pakistan پاکستان کو مکمل طور پر لپیٹ دیا جانا مہاجر ووٹرز کو قبول نہیں ہو گا۔

22اگست کا واقعہ مہاجروں کے لئے بڑے صدمے کا باعث تھا۔ ذرائع کہتے ہیں کہ اس وقت MQM Pakistan کو موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن Khursheed Begum Memorial Hall ،  ایم پی اے ہاسٹل حوالے کرنے Jinnah Park Azizabad میں جلسے کرنے کی اجازت دینے کے مطالبے رد کر دیئے گئے۔ جبکہ MQM Pakistan نے Altaf Hussain کی رہائش گاہ Nine Zero کی حوالگی کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ لہذا پہلے MQM نے اپنا ہیڈ کوارٹر Farooq Sattar کی رہائش گاہ کے قریب Pir Elhi Baksh کالونی (پی آئی بی) منتقل کیا اور بعد ازاں Bahderabad لے گئے۔

جب سابق وزیر اعظم نواز شریف، موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور گورنر سندھ محمد Khursheed Begum Memorial Hall  اور ایم پی اے ہاسٹل MQM Pakistan کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے تو حکومت سندھ اور متعلقہ حلقوں نے اس کی مخالفت کی۔ ایم کیو ایم کے منحرف رکن قومی اسمبلی Salman Mujahid Baloch کے Farooq Sattar کے لندن کے ساتھ رابطوں کے الزام میں کوئی وزن نہیں ہے۔ کیونکہ لندن والے تو انہیں Farooq کا ٹولہ قرار دیتے ہیں۔ خفیہ اداروں کا قومی سیاست میں کردار شاید کم ہو گیا ہو گو کہ کچھ کی رائے میں کردار اب بھی ہے۔  لیکن عموماً کراچی اور خصوصاً MQM کی سیاست میں اب تک سنگین شکوک و شبہات ہیں۔ چاہے وہ ڈرائی کلیننگ کا عمل ہو یا خفیہ ہاتھوں کی بات ہو۔  MQM پر اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہونے کا الزام 1978ء سے لگایا جاتا ہے۔ MQM اور اس کے قائد کا اسٹیبلشمنٹ سے محبت اور نفرت کے اتار چڑھائو کے ساتھ تعلق قائم رہا۔

MQM کو توڑنے کی کوشش 1991ء میں پہلی بار اس وقت ناکام ہوئی۔ جب حقیقی کے نام سے دھڑا قائم کیا گیا۔ دوسری کوشش اس وقت ہوئی تھی جب چیئرمین Tariq Azeem Ahmed استعمال ہوئے اور قتل کر دیئے گئے لیکن MQM London اور اس کی قیادت نے ارضی حقائق اور پاکستانی سیاست سے خود کو جدا کر لیا۔ جس کی وجہ سے 22 اگست کا واقعہ پیش آیا۔ Altaf Hussain اور لندن میں ان کے ساتھی یہ بھول گئے کہ پاکستان مخالف بیان نہ صرف ریاست بلکہ ہر پاکستانی اور ان کے اپنے ووٹ بینک کے لئے بھی ناقابل قبول ہے۔23اگست کو ڈاکٹر Farooq Sattar سمیت MQM Pakistan میں قیادت نے جو کچھ فیصلہ کیا وہ درست تھا۔ اس دن سے آج تک MQM Pakistan کے رہنما اور کارکن مشکوک تصور کئے جا رہے ہیں اور باقی وہ تمام جو پی ایس پی میں چلے گئے۔ انہیں نہ صرف ریلیف بلکہ مقدمات سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ یہ تمام تر پیشرفت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ پی ایس پی ہی کو ہی ایم کیو ایم کا ممکنہ متبادل سمجھا جا رہا ہے۔ اب یہ تبدیلی ووٹرز کے لئے قابل قبول ہوتی ہے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہو گا۔گزشتہ چند ہفتوں سے ایسا لگ رہا ہے ڈاکٹر فاروق ستار اپنا اعتماد کھوتے اور Mustafa Kemal حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ MQM کا کیا انجام ہو گا؟ اس سے قطع نظر سیاسی اور دانشور طبقات میں یہ عام احساس ہے کہ کب تک ملکی اور خصوصاً کراچی کی سیاست میں سیاسی تجربات ہوتے رہیں گے۔ MQM جس نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز منزل نہیں، رہنما چاہئے کے نعرے سے کیا تھا، اسے واقعی رہنما ملا اور نہ ہی منزل ملی بلکہ سمت ہی گم ہو کر رہ گئی ہے۔

No comments.

Leave a Reply