چینی ”تائنگونگ” خلائی اسٹیشن کے گرنے کا وقت شروع ہو گیا

چین نے اپنے اِس خلائی اسٹیشن کا نام ''تائنگونگ'' رکھا

چین نے اپنے اِس خلائی اسٹیشن کا نام ”تائنگونگ” رکھا

بیجنگ ۔۔۔ نیوز ٹائم

انسان کی فطرت میں ہی یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی پہنچ کے دائرہ کار کو کائنات کی لامحدود گہرایوں تک وسیع کرنا چاہتا ہے، یہ سوچ انسان کو جہاں ترقی پذیر ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے وہیں اِس بات کا ڈر بھی دماغ میں بٹھا دیتی ہے کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ اِور ایسا ہی حال 1960ء میں امریکی سائنسدانوں کا تھا، جنہوں نے چاند اور دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کا منصوبہ بنایا۔  اِس کام کو سرانجام دینے سے پہلے کچھ باتوں کی صحیح طرح سے جانچ کر لینا بہت اہم تھا۔ پہلا کام تو یہ تھا کہ ہم اِس قابل ہو جائیں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ قوت پیدا کرنے والے راکٹ موجود ہوں جو ہم انسانوں کو خلا کی گہرایوں میں لے جائیں۔  آج انسان ایسے راکٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جن کے ذریعے یہ خلا میں سفر کر سکتا ہے، مگر اِس کے باوجود بھی ہم اسی کوشش میں ہیں کہ راکٹ کو اتنی جِدت سے نوازا جائے کہ ہم روشنی کی رفتار سے بھی سفر کرنے کے قابل ہو جائیں۔ راکٹ تیار کرنے کے بعد امریکی سائنسدانوں نے زمینی ماحول سے باہر جا کر ایک نئی دنیا تلاش کرنے کے کام کو شروع کیا، اور اس لیے ماہرین نے خلا میں جانے کے لیے سیٹلائٹ تیار کی، جسے خلائی اسٹیشن بھی کہا جاتا ہے، یہ کام بھی امریکی ماہرین نے شروع کیا۔ امریکا کی جانب سے زمین سے 300 کلومیٹر اونچائی پر سفر کرتا “International Space Station” بنایا گیا، آج اِس میں سائنسدان بہت سے تجربات کر رہے ہیں۔ خلائی اسٹیشن بنانا اور خلا میں جا کر تجربات کرنا صرف امریکا اور روس تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ بھی دیگر سائنسی تجربات کی طرح چین سمیت دیگر ممالک تک پھیلنے لگا۔

دیگر ممالک کی دیکھا دیکھی چین نے بھی خلا میں خلائی اسٹیشن بھیج کر تجربات کرنے کی کوشش کی اور 2011 ء میں اپنا ایک خلائی اسٹیشن زمین کے گرد بھیجنے کے لیے تیار کر لیا اور 29 ستمبر 2011ء کو اِس خلائی اسٹیشن کا پہلا حصہ خلا میں بھیج دیا، چین نے اپنے اِس خلائی اسٹیشن کا نام ” Tiangong ” رکھا، یہ چینی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ”آسمانی محل” ہے۔ 29 ستمبر 2011 ء کو بھیجے گئے چینی خلائی اسٹیشن کے پہلے حصے کا نام Tiangong-1′ تھا، اور پھر 10 ستمبر 2016 ء کو چین کی جانب سے ”Tiangong-11بھی خلا میں بھیج دیا گیا۔ اِس اسٹیشن کے پہلے حصے کے خلا میں جانے کے بعد اس میں چینی خلابازوں کو بھی بھیجا گیا، ان خلابازوں میں ” Liu Yang ” کو اس خلائی اسٹیشن میں پہلی چینی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا, لیکن اکثر کہا جاتا ہے کہ ”بری خبر کسی کو بتا کر نہیں آتی”، تو کچھ یہی حال چین کے اس خلائی اسٹیشن کے ساتھ بھی ہوا۔ 2011سے 2016 ء تک اس اسٹیشن میں تجربات کئیے گئے، لیکن 2016 ء کے وسط میں بدقسمتی سے چین اس آسمانی محل کا کنٹرول کھو بیٹھا، اور اب اس اسٹیشن کا کوئی سنبھالنے والا نہیں، البتہ چین نے اقوام متحدہ کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔ 2016 سے اب تک اس اسٹیشن کا مدار درجہ بدرجہ چھوٹا ہو رہا ہے، اور زمین کی کشش بتدریج اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔  Harvard-Smithsonian Center for Astrophysics کے خلائی ماہر ڈاکٹر Jonathan McDowell کا کہنا ہے کہ اب اس کی پیریگی 300 کلومیٹر سے کم رہ گئی ہے، اور یہ کثیف ماحول کی جانب بڑھ رہا ہے، واضح رہے کہ فلکیاتی اصطلاح میں پیریگی کسی بھی سیٹلائٹ کے مدار میں وہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ زمین سے قریب تر ہو۔ ڈاکٹر Jonathan McDowell نے مزید کہا کہ ”اکتوبر 2017 ء سے اپریل 2018 ء کے دوران اس خلائی اسٹیشن کے زمین پر گرنے کا امکان ہے۔ جیسے جیسے یہ زمین کے قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس کے ارد گرد ہوا کا دبائو بڑھتا جا رہا ہے ہوا اور اس اسٹیشن کے درمیان رگڑ سے حرارت پیدا ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر Jonathan McDowell نے یہ بھی بتایا کہ جب یہ اسٹیشن زمینی فضا میں تیزی سے گزرے گا تو حرارت کی وجہ سے اس میں آگ بھڑک اٹھے گی، اور یہ ہوا میں ہی کچھ حد تک راکھ ہو جائے گا لیکن اس کے 100 کلو گرام وزنی ٹکڑے زمین پر آ گریں گے، یہ ٹکڑے کس جگہ گریں گے، ابھی اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر Jonathan McDowell نے یہ بھی بتایا کہ اگر اس آسمانی محل نے برِاعظم ایشیا میں گِرنا ہو گا تو ماحول میں ہلکا سا فرق آنے پر یہ برِاعظم افریقہ میں جا گِرے گا۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملبہ سمندر میں گِرنے کی زیادہ امید ہے، کیونکہ زمین کا تقریباً 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ یہ حادثہ تو پیش آنا ہی ہے مگر اس خبر کے بعد چینی خلائی ایجنسی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں اور ایک سوال جو ہر کسی کی زبان پر ہے کہ یہ چینی آسمانی محل اس قدر ناپائیدار تھا کہ مشکل سے 5 برس خلا میں گزارنے کے بعد آج پوری دنیا کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے؟ یقیناً اس پر تحقیق ہو گی، لیکن یہ آفت دنیا میں کس جگہ نازل ہو گی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

No comments.

Leave a Reply