امریکی دبائو کے تحت افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کو اپنا دشمن نہیں بنایا جائے گا: پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، چیف آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، چیف آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے طے کر لیا ہے کہ امریکی دبائو کے تحت افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کو اپنا دشمن نہیں بنایا جائے گا۔ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ قابل اعتماد سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی اس وقت دو اہم خواہشات ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح پاکستان ٹی ٹی پی اور اس کے سپورٹر دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف کامیاب کارروائی کی، بالکل اسی طرح کا ایکشن افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی لیا جائے۔ ذرائع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ Rex Tillerson نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر اس بارے میں جو بات کی اس کا خلاصہ یہ تھا  کہ پاکستان نے تمام تر مشکلات اور محدود وسائل کے باوجود ٹی ٹی پی سمیت درجنوں ایسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھر پور کارروائی کر کے انہیں بیک فٹ پر کیا، جو ایک چھتری تلے جمع تھے۔ جبکہ اس طرح کی کارروائی افغان طالبان و حقانی نیٹ ورک کے خلاف نہیں کی جا رہی جو ایک ہی برانڈ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ سرحد کے اس پار اور کچھ اس پار بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپنے اخباری بیانات کے برعکس امریکہ اس بات پر کنوینس ہے کہ اب پاکستان میں افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں،  لیکن اس کی خواہش ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جو لوگ انفرادی طور پر سرحد پار کر کے پاکستان میں اپنے عزیزوں سے ملنے یا علاج کرانے یہاں آتے ہیں، اس کی بروقت اطلاع امریکہ کو دی جائے تاکہ وہ انہیں ڈرون سے نشانہ بنا سکے۔ ذرائع کے بقول اس کے جواب میں Rex Tillerson اور دیگر امریکی حکام کو کہا گیا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہیں۔ روزانہ 30، 40 ہزار افغان باشندے  سرحد پار کر کے ادھر ادھر جاتے ہیں، اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ ایسے میں کیا پتہ چلتا ہے کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کا کام شروع کیا ہے، جس کی کابل حکومت اور امریکی حکام مخالفت کر رہے ہیں۔ لہذا اگر اس انفرادی دراندازی کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو پھر جس طرح پاکستان، افغان سرحد پر آہنی باڑھ لگا رہا ہے، کابل حکومت کو بھی اسی طرح فینسنگ کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ یکطرفہ باڑھ لگانے سے معاملہ حل نہیں ہو گا۔

ذرائع کے بقول افغان طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی ٹیبل پر لانے سے معلق امریکی مطالبے پر Rex Tillerson کو یہی پیغام دے کر بھیجا گیا کہ اب معاملات پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر پاکستان اثرورسوخ ختم ہو چکا، لہذا اس سلسلے میں پاکستان اب اپنا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ افغان طالبان کی جس کوئٹہ شوریٰ کی بات کی جاتی تھی وہ اب جنوبی افغانستان منتقل ہو چکی  جبکہ حقانی نیٹ ورک کو مشرقی افغانستان دھکیلا جا چکا ہے۔ اب یہ کابل حکومت اور وہاں موجود امریکی اتحادی فوجوں کا کام ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ ماضی میں جب پاکستان نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا تو اسے کابل اور واشنگٹن نے ہی ناکام بنایا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان سے یہ جواب لے جانے کے بعد Rex Tillerson اور دیگر امریکی حکام نے مطالبات پورے نہ ہونے پر دوسرا راستہ اختیار کرنے کی جو دھمکی دی ہے،  اس پر سیاسی و عسکری قیادت نے سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف کے دور میں امریکہ دبائو اور دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی طے کی گئی تھی اس کو فالو کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت بھی پاکستان کو کم و بیش وہی صورت حال درپیش ہے جس کا سامنا 9/11 کے بعد تھا۔ فرق یہ ہے کہ اس بار امریکی دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے مشرف دور سے مختلف حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مشرف نے بش انتظامیہ کی اس دھمکی پر جنوبی وزیرستان آپریشن شروع کرایا تھا کہ انکار کی صورت میں نیٹو  فورسز خود یہ کام کر لیں گی۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ اسی طرح کی بات کر رہی ہے، جسے تسلیم نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قبل ازیں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے حد درجہ امریکی دبائو کے باوجود شمالی وزیر ستان میں آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس پر برقرار بھی رہے۔ جبکہ تمام تر دھمکیوں کے باوجود امریکی بیک فٹ پر چلے گئے تھے۔

اس ساری صورت حال پر بات کرتے ہوئے معروف عسکری تجزیہ کار آصف ہارون کا کہنا تھا کہ پاکستان Rex Tillerson  اور دیگر ذرائع سے ٹرمپ انتظامیہ کو طریقے کے ساتھ یہ بھی پیغام دے دیا ہے کہ پاک، افغان سرحد سے جس دراندازی کی بات کی جا رہی ہے،  اسے روکنا صرف پاکستان نہیں کابل اور امریکی حکام کی بھی ذمہ داری ہے۔ لہذا پہلے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہر روز ہونے والی لڑائی کو ختم کرایا جائے۔ افغانستان میں منشیات کا دوبارہ شروع ہونے والا بڑا بزنس روکا جائے۔ اور یہ کہ کروڑوں امریکی ڈالر خرچ کر کے تشکیل دی جانے والی افغان نیشنل آرمی کو طالبا و حقانی نیٹ ورک کے خلاف لڑایا جائے۔ پاکستان سے یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ واشنگٹن اور کابل کو جنگ جتا کر دے گا کیونکہ یہ افغانستان اور امریکہ کی جنگ ہے، پاکستان نے اپنے حصے کی جنگ لڑ لی اور لڑ رہا ہے۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ دراصل ٹرمپ اب بش کے باپ بننے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اگر بش نے ایک ٹیلی فون کے ذریعے مشرف کے گھٹنے ٹیک دیئے تھے تو وہ تو ان سے بڑی چیز ہیں۔ لہذا ان کی دھمکی پر موجودہ پاکستانی قیادت دبائو میں آ جائے گی۔ تاہم صورت حال ان کی توقع کے برعکس ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چٹکی بجا کر شکیل آفریدی کو رہا کرانے کا دعویٰ کرنے والے ٹرمپ کو تاحال ناکامی کا سامنا ہے، حالانکہ پس پردہ اس حوالے سے پاکستان کو شدید دبائو کا سامنا ہے۔ لیکن یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پاکستانی مفاد کے برخلاف امریکی خوشنودی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔

دوسری جانب اس معاملے پرتجربہ کار عسکری تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان سمجھ چکا ہے کہ امریکی، بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ لہذا واشنگٹن کے مطالبات تسلیم کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔پھر یہ کہ امریکہ بغیر کچھ دیئے پاکستان سے اپنے مطالبات منوانا چاہتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ چونکہ ایک کاروباری شخص ہیں، لہذا بھارت ان کے لیے اس لئے بھی پہلی ترجیح بن چکا ہے کہ وہ چین اور پاکستان کے خلاف نئی دہلی کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی دے کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ امریکہ کو علم ہو چکا ہے کہ پاکستان اب طالبان کے ساتھ اس کی مفاہمت نہیں کرا سکتا۔ اس وقت امریکہ کو صرف ایک ہی فکر لاحق ہے کہ پاکستان کہیں روس کے  کیمپ میں نہ چلا جائے۔ اس لئے یہ خدشہ نہیں کہ اسلام آباد کو دی جانے والی دھمکیوں پر عمل کر کے امریکہ اس حد تک تعلقات بگاڑ لے  کہ واپسی کا راستہ نہ رہے۔ جنرل امجد شیعب کے بقول افغان طالبان اس وقت پاکستان کے بجائے روس اور ایران کے زیر اثر چلے گئے ہیں جو انہیں ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply