امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی2017ء ایک رپورٹ میں امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے 6182 کیسز فائل

بیس سالہ امریکی فوج کی افسر ماریا فرانسس لیٹربیخ

بیس سالہ امریکی فوج کی افسر ماریا فرانسس لیٹربیخ

نیوز ٹائم

بیس سالہ Maria Frances Lauterbach   امریکی فوج میں ملازم تھی۔ اس کی تعیناتی Marine Base of North Carolina پر تھی جہاں سے وہ 14 دسمبر 2007ء کو لاپتہ ہو گئی۔ 11 جنوری 2008 ء کو پولیس نے اس کی جلی ہوئی لاش اس کے Commanding Officer Lauren کے گھر کے پچھلے صحن سے دریافت کی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق Maria Frances Lauterbach 8 مہینے کی حاملہ تھی۔ اس کی سوتیلی ماں کا کہنا تھا کہ Maria Frances Lauterbach نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل اسے بتایا تھا کہ اسے اس کے کمانڈنگ افسر نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس کے رپورٹ کرنے پر بھی فوجی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ Maria Frances Lauterbach کی ماں کا کہنا تھا کہ Maria Frances Lauterbach نے کچھ عرصہ قبل جنسی ہراسانی اور زیادتی کے خطرے کے باعث اپنے بیس سے تبادلے کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اگر اس کی بات پر یقین کر کے تبادلہ کر دیا جاتا تو اس کا ریپ اور بعد ازاں قتل نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوج میں ہر سال جنسی تشدد، زیادتی، ریپ اور جنسی ہراسانی کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔

امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی 2017ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2016 ء میں امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے 6182 کیسز فائل ہوئے۔ یہ 2012 ء کے مقابلے میں تقریبا دو گنا ہیں جب 3604 کیسز رپورٹ کئے گئے تھے۔ پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی خواتین دشمن کے حملوں میں ہلاکت کی نسبت ساتھیوں اور افسران سے ریپ کے خطرے کی زیادہ شکار ہیں۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور، امریکی دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب ترین قوم گردانی جاتی ہے۔ اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور جدید ترین عسکری وسائل سے بھرپور امریکی فوج 1.5 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور اور منظم ادارہ ہے۔

Helen BenedictProfessor of Journalism اور 10 سے زائد کتب کی مصنفہ، نے عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجی خواتین کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا رویہ پر Soldier The Lonely   نامی کتاب تصنیف کی۔ ان کا لکھنا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد کے رحجانات کا بڑا سبب عورتوں سے نفرت کا شدید کلچر ہے۔ مصنفہ نے کتاب میں عراق میں تعینات 5 خواتین کی آپ بیتیوں کے ذریعے فوجی خواتین کو در پیش صورت حال سے آگاہ کیا۔ Helen Benedict کہتی ہیں کہ ویتنام میں بڑی تعداد میں جسم فروش عورتیں ( prostitutes ) موجود تھیں جو عراق میں نہیں تھیں، اس لئے عراق میں خواتین سپاہیوں کو بھیجا گیا۔ یاد رہے جنسی زیادتی کا شکار صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد فوجی بھی اس کا شکار رہے ہیں۔ مثلاً امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صرف 2010ء میں 108000 سے زائد امریکی فوجی خواتین اور مرد مختلف نوعیت کے جنسی تشدد کا شکار رہے جن میں سے 68 ہزار سے زائد نے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی تکلیف دور کرنے کے لئے کم از کم ایک مرتبہ ملٹری کلینکس کا رخ کیا۔

افسوسناک اور سنگین امر یہ ہے کہ  یہ جنسی زیادتیاں حکام بالا کو رپورٹ کرنے کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 5 میں سے ایک خاتون جبکہ 15 میں سے ایک مرد فوجی اپنی اعلی حکام کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کی رپورٹ کرتا ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ شکایات مسترد کر دی جاتی ہیں اور صرف 8 فیصد کیسز کی تفتیش ہوتی ہے جن میں سے سزائیں محض 2 فیصد کو ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک کے فوجی ان واقعات کو کیوں رپورٹ نہیں کرنا چاہتے؟ جو رپورٹ کرتے ہیں ان کی شکایات کو کیوں مسترد کیا جاتا ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی طاقتور ترین فوج جنسی تشدد کے ان رحجانات پر کیوں قابو نہیں پا سکی؟ 18 مئی 2015ء کو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال جنسی حملوں کے 62 فیصد متاثرین جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو رپورٹ کیا،  ان کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت کے بدلے میں افسران کی دشمنی اور برے رویہ، اپنے ساتھیوں کے طنز اور طعنے، انتظامی ایکشن یا سزا کی صورت میں انتقامی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنسی حملوں کے متاثرین کی بڑی تعداد  فوج چھوڑ دیتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سروے میں صرف حاضر سروس فوجی شامل کئے گئے تھے۔ جن خواتین و حضرات نے ان حملوں کے نتیجے میں فوج کو چھوڑ دیا یا انھیں شکایات کرنے پر فوج چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا، وہ  شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انتقامی کارروائی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ انتقامی کارروائی کے اسی ڈر کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتی لیکن PTSD یعنی POST TRAUMATIC STRESS AND DISORDER کا شکار ہو جاتی ہے جس سے فوج میں ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

سابق امریکی وزیر دفاع Leon Panetta کے مطابق ہر سال 19000 مرد اور فوجی عورتیں جنسی حملوں کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے صرف 3200 رپورٹ ہوتے ہیں۔  2010 کے اعداد و شمار کے مطابق 3198 کیسسز کو Process کیا گیا اور سزائیں صرف 244 کو ہوئیں یعنی جن حملوں پر سزائیں دی گئیں وہ کل تعداد کا ایک اعشاریہ تین(1.3) فیصد سے بھی کم بنتے ہیں۔ Awarding Wing Director Kirby Dick نے سن 2012 ء میںThe Invisible War کے نام سے امریکی فوج میں ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک Documentary بنائی جس نے صحافت کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی خوب ہلچل مچائی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کا کلچر شروع ہی سے موجود ہے  جنہیں فوج کی اعلی قیادت کی سرپرستی حاصل ہے اور اسے خاموشی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنسی حملوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ پہلو انہیں رپورٹ کرنے پر فوج کے اعلی حکام کی طرف سے اختیار کیا جانے والا رویہ ہے جس میں سزا مجرم کے بجائے شکایت کرنے والے کو ملتی ہے۔

ایک دلچسپ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ستمبر 2011ء میں 28 فوجیوں نے، جن کا دعوی تھا کہ انھیں فوجی سروس کے دوران ریپ کیا گیا، اس وقت کے وزیر دفاع  Rumsfeld  پر براہ راست مقدمہ کیا۔ مدعیوں کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی اعلی قیادت کی غفلت ان مجرموں کو سزا نہ ملنے کی ذمہ دار ہے،  نتیجتاً ریپ کا کلچر فوج میں فروغ پا رہا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عدالت نے یہ کیس جس نے  Cocia vs Rumsfield کے نام سے شہرت حاصل کی، سننے سے ہی انکار کر دیا۔ سن 2013ء میں پینٹاگون میں امریکی ایئر فورس کے جنسی حملوں کے روک تھام کے آفس کے سربراہ Jeffrey Krusinski کو پولیس نے Arlington  میں پارکنگ لوٹ میں ایک عورت پر جنسی حملے کے الزام میں گرفتار کیا، بعد ازاں جیوری نے اسے بری کر دیا۔ اس سلسلے میں پچھلی تین دہائیوں میں متعدد بڑے سکینڈل سامنے آئے جن میں جنسی زیادتی سے زیادہ فوج کی اعلی قیادت کی طرف سے انھیں نظر انداز کرنے اور متاثرین کی شکایت کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ خود شکایات کنندگان کو ڈرا دھمکا کر شکایات واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شکایات کرنے والوں کو فوج سے نکالنے، ان کا عہدہ کم کرنے یا  پروموشن روکنے کے متعدد واقعات بھی موجود ہیں۔  یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو رہی اور زیادہ تر لوگ اپنی ملازمت ختم ہو جانے کے خوف سے ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے۔

جنسی زیادتی کے سلسلے میں سن 1991-92ء Tailhook اسکینڈل کا خوب چرچا ہوا تھا جس میں 1991 ء  میں 8 ستمبر سے 12 ستمبر کے دوران میں Las Vegas Hilton Hotel میں پہلی خلیجی جنگ پر ہونے والے Symposium کے دوران 83 خواتین اور 7 مرد فوجیوں پر ان کے اپنے ہی 100 سے زائد ساتھیوں نے جنسی حملے کیے۔ ان حملوں کے ثبوت تصویروں اور وڈیوز کی صورت میں موجود تھے۔ یہ واحد سکینڈل تھا جس میں نہ صرف ذمہ داران کو سزائیں دی گئیں بلکہ جن افسران نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی ان میں سے بھی متعدد افراد کا طویل فوجی کیرئیر سزائوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2003ء میں امریکی ائیر فورس کے ایک سکینڈل نے بھی امریکی فضائیہ کو خوب بدنام کیا جس میں ائیر فورس کی خواتین نے ایک نامعلوم ای میل کے ذریعہ حکام بالا سے رابطہ کیا۔ بعد ازاں تحقیقات کے نتیجے میں ائیر فورس کی 12 فیصد خواتین نے دعوی کیا کہ انہیں ان کے سینئر افسران نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن اس سلسلے کا سب سے بڑا سکینڈل 1996ء کا ابرڈین گرانڈ سکینڈل ہی قرار پاتا ہے جس میں 100 سے زائد حاضر سروس افسران پر مقدمہ چلا اور کئی افسران کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزائیں بھی ہوئیں۔Rear Adm. Ann Burkhardt جو امریکی فوج میں جنسی حملوں کے بچائو کے حوالے سے بننے والے ادارے کی ڈائریکٹر ہیں،  کا کہنا ہے کہ جنسی حملے ہماری ملٹری کی اقدار کی خلاف ورزی ہے اور انہیں برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ حالیہ برسوں میں امریکا میں اس حوالے سے نئی قانون سازی کی گئی ہے خصوصا Maria Frances Lauterbach کے کیس کے بعد ان شکایت کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس کی گئی  جس سے زیادتی کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا،  شکایات پر مقدمہ چلانے اور کورٹ مارشل کی تعداد بھی بڑھی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی فوج اب تک اس مسئلے سے نکل نہیں سکی۔ ایک دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان واقعات کو عورتوں پر ظلم یا حقوق نسواں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔بڑھتا ہوا جنسی تشدد صرف امریکی فوج ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر معاشروں کا مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارت میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے دہلی کو ریپ کیپیٹل آف دا ورلڈ بھی کہا جاتا ہے۔  Helen Benedict کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لئے حکومت کے پالیسی سازوں اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحافیوں کو نئے زاویوں سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنی چاہیے مثلاً  کیا پورن لٹریچر اور ویب سائٹس امریکی فوج اور معاشرے بلکے دنیا بھر میں جنسی تشدد کی ذمہ دار ہیں؟

No comments.

Leave a Reply