قدیم روم میں دی جانے والی انسانیت سوز سزا

روم کی عظیم سلطنت میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا

روم کی عظیم سلطنت میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا

نیوز ٹائم

یہ دوسری صدی عیسوی کا قصہ ہے۔ روم کی عظیم سلطنت میں (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتا تو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔ اس ماحول میں Androcles کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آ چکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آ کر وہاں سے فرار ہو جانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا تو تمام تر وسائل بروئے کار لا کر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر قسمت سے غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک سزائیں دی جاتیں جو دوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں۔

یہ سب باتیں جاننے کے باوجود Androcles نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ Androcles نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہو گئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہو گیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر Androcles وہاں سے فرار ہو گیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جا چھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔ اس نے پناہ حاصل کرنے اور چھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی رہائش گاہ تھی۔ ابھی Androcles کو غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ Androcles نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر Androcles کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے Androcles نے اپنی آنکھیں بند کر لیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مصیبت ٹل نہیں جاتی۔ بہرحال Androcles کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا  کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کا کام تمام کرتا ہے۔ جب تھوڑی دیر گزر گئی اور کچھ بھی نہ ہوا تو Androcles نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شیر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر لیٹا ہوا بے چارگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر Androcles کو حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حوصلہ بھی ہوا اور وہ ہمت کر کے شیر کی طرف کھسکنے لگا۔ نزدیک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ شیر نے اپنا ایک پنجہ آگے کو کیا ہوا ہے اور اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبھا ہوا ہے۔ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا اور یقیناً شکار تک کرنے سے قاصر تھا۔ Androcles کا دل ہمدردی سے بھر آیا اور اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہاتھ بڑھا کر شیر کے پائوں میں سے اس کانٹے کو باہر نکال کر شیر کو اس اذیت سے نجات دلا دی جو وہ نہ جانے کب سے جھیل رہا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا ملنے پر شیر Androcles کو ممنون نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس طرح Androcles اور شیر کی دوستی ہو گئی اور وہ دونوں آرام و سکون سے مل جل کر غار میں رہنے لگے۔  اسی طرح 3  برس گزر گئے۔  بالآخر ایک دن Androcles نے فیصلہ کیا کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہے اب تک یقینا اس کا آقا اسے بھول گیا ہو گا۔  اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر پہنچ کر ابھی وہ بازار میں گھوم پھر ہی رہا تھا کہ ناجانے کیسے بازار میں گشت کرتے سپاہیوں کے ایک دستے کو اس پر شک گزرا۔  جب سپاہیوں نے اس سے اس کی شناخت طلب کی تو Androcles گھبرا گیا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو سپاہیوں کو یقین ہو گیا کہ وہ کوئی مجرم ہے۔ سپاہیوں نے تعاقب کر کے اس کو پکڑ لیا۔ پکڑے جانے پر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی پشت پر داغی جانے والی مہر غلامی نے سارا راز فاش کر دیا اور پتا چل گیا کہ وہ ایک مفرور غلام ہے۔ سپاہیوں نے اسے حوالہ زنداں کیا جہاں اسے  موت کی سزا سنا دی گئی۔اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عملدرآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا  اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کر کے اسے ہڑپ کر جاتا تھا۔ ایک جانب تو Androcles قید خانے  میں پڑا اپنی زندگی کے دن گن رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ کے شکاری جنگل میں جال لگا کر ایک نیا شیر پکڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ آخر کار ان کی مراد بر آئی اور ان کے جال میں ایک تندرست و توانا شیر پھنس گیا۔ شیر کو شہر لایا گیا اور 3 دن تک اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ تین دن بعد بادشاہ کے حکم سے سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عملدرآمد کرنے کے اعلان کی شہر بھر میں منادی کروا دی گئی۔ مقررہ دن ساری خلقت اسٹیڈیم میں اس انسانیت سوز نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ سپاہی قید خانے سے Androcles کو کھینچتے ہوئے اسٹیڈیم کے بیچ بنے میدان نما حصے میں لے آئے اور پھر ایک جانب رکھے شیر کے پنجرے کو کھول دیا۔ بھوک سے بے تاب درندہ ایک غضبناک دھاڑ کے ساتھ اچھل کر پنجرے سے باہر آیا اور لاغر و ناتواں Androcles کی طرف لپکا۔ لیکن پھر سب لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر جیسے ہی Androcles کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اسے سونگھنے لگا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور بادشاہ بھی انتہائی حیرت سے Androcles کے قدموں میں بیٹھے شیر کو اس کے پائوں چاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ وہی شیر تھا جس کے پیر سے Androcles نے کانٹا نکالا تھا۔ ایک انسان کے احسان کو یاد رکھنے کی یہ داستان سن کر بادشاہ اور Androcles کا آقا بھی بہت متاثر ہوئے اور Androcles کو رہائی کے ساتھ غلامی سے آزادی کا پروانہ بھی دے دیا گیا۔ یہ کہانی کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔

اس واقعہ کا ذکر پہلی صدی عیسوی کے معروف یونانی ادیب (Apion) نے اپنی کتاب عجائبات مصر (Wonders of Egypt) میں کیا ہے جو اس واقعہ کا عینی شاہد تھا۔ یہ کتاب اب ناپید ہو چکی ہے مگر دوسری صدی عیسوی کے ایک لاطینی ادیب (Avlvs Gellivs) نے اپنی کتاب (Attic Night) میں (Apion)  کی کتاب اور اس واقعہ کا تذکرہ کر کے اسے زندہ کر دیا۔ (Avlvs Gellivs) روم میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا اور بعدازاں ایتھنز میں تعلیم حاصل کی۔Androcles کی یہ کہانی بعد میں چھٹی صدی عیسوی میں ایک گڈریا اور شیر اور بارہویں صدی عیسوی میں (Yvain, the Knight of the Lion) کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ ادوار میں بھی یہ مختلف ناموں سے سامنے آتی رہی۔ یہاں تک کہ 1912ء  میں مشہور انگریز ڈرامہ نگار جارج برنارڈشا نے اس پر ایک ڈرامہ Androclesاینڈ دی لائن (Androcles and the Lion) لکھ کر Androcles کو ماورائی کردار بنا دیا۔ سینما اور ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اس کہانی پر کئی ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنیں۔ جس کی تازہ مثال 2000ء میں بننے والی مشہور فلم Gladiator ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قدیم یونان میں قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینک کر سزائے موت دیئے جانے کی سزا عام تھی۔ اس بہیمانہ اور سنگ دلانہ طریقے سے سزا دینے کے عمل کو لوگ تفریح کا ذریعہ سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کو بھی ایک خونی کھیل کا درجہ حاصل تھا جس کو (Bestiarii) کہا جاتا تھا۔ تاریخ اس طریقے سے سزا دینے کے اصل مقصد کے بارے میں تو خاموش ہے لیکن یہ ضرور بتاتی ہے کہ شروع میں شاید یہ قربانی دینے کی کوئی مذہبی رسم رہی ہو گی جو بعد میں قانونی سزا میں تبدیل ہو گئی۔ خاص طور پر دنیا کے ان علاقوں میں جہاں شیر اور دیگر درندے قدرتی طور پر پائے جاتے تھے۔ اور انہیں مذہبی لحاظ سے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہ براعظم ایشیا کے چند حصے اور افریقہ۔ مصری دیو مالا میں زیر زمین شیطان کے تصوراتی کردار (Ammit) کے بارے میں عقیدہ تھا کہ وہ گناہ گار لوگوں کی روحوں کو نگل جاتا ہے۔ مصریوں کے تصور کے مطابق Ammit مگر مچھ نما انسانی شکل رکھتا تھا جو بن مانس کی طرح چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا تھا۔ مصری دیو مالا میں ایک اور کردار (Sekhmet) بھی ہے جو سورج دیوتا کی بیٹی، آگ اور جنگ کی دیوی تصور کی جاتی ہے۔  ان کے عقیدے کے مطابق Sekhmet جب سانس لیتی ہے تو اس کی حدت سے صحرا وجود میں آتے ہیں۔ مصری دیو مالا میں اس دیوی کو شیرنی کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے عقیدے کے مطابق اس نے اپنی پیدائش کے فورا بعد تقریباً ساری انسانی آبادی کو نگل لیا تھا۔ تاریخ میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ قدیم مصر اور لیبیا میں زندہ اور مردہ انسانوں کو شیروں اور مگر مچھوں کی خوراک کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔  سکندر اعظم کے دور کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب اس کے ایک ساتھی (Lysimachvs) نے سینٹرل ایشیا میں جنگ کے دوران ایک شخص کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف آواز بلند کی تو سکندر نے اس کو بھوکے شیر کے سامنے پھینکوا دیا، اسی طرح 250 سال قبل از مسیح میں جنگ (Mercenary) کے بعد جنرل (Hamilcar) نے جنگی قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینکوا دیا تھا۔  (Punic) وارز میں پکڑے جانے والے رومیوں کو (Hannibal) نے مجبور کیا کہ وہ ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہوں۔ روم کے علاقے میں شیر بہت کم پائے جاتے تھے اور ساتویں صدی عیسوی میں (Numa Pompilivs) نے کیونکہ انسانی قربانی دینے پر پابندی لگا دی تھی  اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں درندوں کے سامنے انسانوں کو پھینکنے کا عمل ایک مذہبی رسم کی بجائے کھیل تماشے کے طور پر انجام دیا جاتا تھا۔ ان درندوں میں شیروں کے علاوہ چیتے، بھگیار اور ریچھ وغیرہ شامل تھے۔ قیدیوں کو درندوں کے سامنے ڈلوانے کی سزا قدیم روم میں رائج کرنے کا ذمہ دار دو کمانڈروں کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایک (Lucivs Aemilius) جس نے مقدونیہ کو 186 قبل مسیح میں شکست سے دوچار کیا تھا  اور دوسرا اس کا بیٹا سیکپیو ایمیلینس جس نے 146 قبل مسیح میں افریقہ کے مشہور شہر (Carthage) کو فتح کیا تھا۔  یہ قبیح رسم Carthage سے ہی روم لائی گئی اور ابتداعاً غداروں اور بھگوڑوں کو دی جاتی تھی تاکہ عوام کو عبرت ہو۔ اس سزا پر عملدرآمد کے نتائج اتنے مفید ثابت ہوئے کہ بتدریج یہ طریقہ کار مقبولیت حاصل کرتا چلا گیا اور یوں دیگر سنگین جرائم پر بھی یہ سزا دی جانے لگی۔ مجرموں کو یا تو ستونوں کے ساتھ باندھ کر ان پر درندے چھوڑ دیئے جاتے یا پھر انہیں نہتا کر کے جانوروں کے سامنے ڈال دیا جاتا۔  اس سزا پر عملدرآمد کے لیے شیر، دوسرے ملکوں سے روم لائے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں ریچھ،  مغربی یورپ کے علاقے (Gaul) جرمنی اور یہاں تک کہ شمالی افریقہ سے روم منتقل کیے جاتے۔  چند مورخین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر ان جانوروں کی روم درآمد کی وجہ سے شمالی افریقہ میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچا۔ درندوں کی خوراک بننے والے بدنصیبوں کو ان کے شہری حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا تھا۔  مثلاً وہ اپنی وصیت نہیں لکھ سکتے تھے۔ اور ان کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی جاتی تھیں۔ ہاں البتہ آجروں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے غلاموں یا ملازمین کو بغیر عدالتی فیصلے کے یہ سزا دے سکیں۔ اسی طرح فوجیوں اور ان کے بچوں (ماسوائے غداروں یا بھگوڑوں کے) کو بھی اس سزا سے استثنا حاصل تھا۔ بالآخر 681 میں روم میں اس سزا پر پابندی عائد کر دی گئی۔  سزا کے خاتمے کے بعد بازنطینی سلطنت میں 1022 میں اس کی صرف ایک مثال تاریخ میں ملتی ہے جب بازنطینی حکمران (Basil II) کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے کے جرم میں فوج کے متعدد جرنیلوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا  اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور ان شاہی خواجہ سرائوں کو بھوکے شیروں کے آگے پھینک دیا گیا جنہوں نے جرنیلوں کی معاونت کی تھی یا دوسری مثال پانچویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی پر محیط دور جسے یورپ کی تاریخ میں مڈل ایجز یا مڈیول ایجز کہا جاتا ہے کہ دوران ملتی ہے جب (Saare-Laane) کے بشپ کو یہ سزا دی گئی۔ یہ واقعہ موجودہ Essentonella کے Bishop Castle میں پیش آیا۔

No comments.

Leave a Reply