افریقہ میں 70 ہزار برس قدیم انسانی نقل مکانی

افریقہ میں 70 ہزار برس قدیم انسانی نقل مکانی

افریقہ میں 70 ہزار برس قدیم انسانی نقل مکانی

نیوز ٹائم

حال ہی میں کیے جانے والے ایک تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ افریقی خطہ 70,000 سال قبل پہلے خشک ہوا تھا۔ یعنی اس سرزمین کی نمی اور گیلا پن ختم ہو گیا تھا جس کے بعد اس خطے میں ایک اور اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ یہ خطہ ٹھنڈا بھی ہونے لگا۔ موسم کے ان بدلتے ہوئے اثرات نے انسان پر بہت زیادہ اثر ڈالا تھا، جس نے اسے بری طرح خوف زدہ بھی کر دیا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس خطے میں ایک بہت بڑی انسانی ہجرت واقع ہوئی اور اچھی خاصی بڑی تعداد میں یہاں طویل عرصے سے آباد انسان نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے اور وہاں آباد ہو گئے۔ اس ضمن میں ہونے والی ایک تحقیقی ریسرچ کے بعد ماہرین اور تحقیق دانوں نے سمندر کی ایک مادی تہہ جو سمندری کچرے اور کوڑے کی تہہ پر مشتمل ہے، اس کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سمندر کی اس تہہ میں جمع شدہ مواد یا بہت سے مادوں کا کچرا کوئی 2  lakh سال پرانا ہے۔ گویا اس سے اس سمندری تہہ کے کچرے کی عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ یہ خطہ کسی وقت یعنی ماضی بعید میں بالکل خشک ہو گیا تھا اور پھر سرد بھی ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ جگہ اور بھی زیادہ خشک ہو گئی تھی، گویا نمی اور پانی سے بالکل خالی ہو گئی تھی۔ اب دو چیزوں نے اس پر اپنے منفی اثرات مرتب کیے اور یہ خطہ سرد بھی ہوتا چلا گیا۔ ماہرین اپنا خیال پیش کرتے ہوئے اس زمانے کو نم یا گیلا زمانہ کہتے ہیں، گویا دوسرے لفظوں میں اسے green sahara کا نام دیا گیا تھا۔ اپنی نئی تحقیق میں ماہرین یہ خیال بھی پیش کرتے ہیں کہ ان حالات سے گھبرا کر یا پریشان ہو کر یعنی آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات دیکھنے  اور انہیں قبل از وقت بھانپنے کے باعث انسان نے اس جگہ سے لگ بھگ 70,000 سال پہلے ہجرت کی ہو گی اور اپنے لیے نسبتاً زیادہ محفوظ اور بہتر علاقے تلاش کر لیے ہوں گے اور وہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ سائنس دانوں نے حالات و واقعات اور شواہد کو دیکھ کر اپنی یہ رائے بھی دی ہے  کہ اس خطے میں آب و ہوا کی تبدیلی بار بار یعنی ایک تواتر کے ساتھ اور خاصی شدید ہوئی ہو گی اور یہ سب کام نقل و مکانی کے زمانے میں ہی ہوا ہو گا۔ ایک نئے تحقیقی مطالعے سے اس بات کے ٹھوس شواہد بھی ملے ہیں کہ موسموں اور آب و ہوا کی مسلسل تبدیلیوں نے اس خطے میں انسانوں کے رہنے کو یقینی طور پر مشکل بنا دیا ہو گا  جس کی وجہ سے مجبور ہو کر انہیں اس خطے کو خیر باد کہنا پڑا۔

ریسرچ کرنے والے ماہرین نے سمندر کی ایک تہہ میں موجود  مواد یا تہہ نشین کا بھی تجزیہ کیا  اور اس سے انہیں 2 لاکھ سال پہلے شمال مشرقی افریقا کی آب و ہوا کی کچھ علامات کے آثار بھی ملے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وہ مدت تھی جس دوران یہ خطہ بالکل خشک ہو گیا تھا جس کے بعد یہاں نم یا گیلا انقلاب آیا اور اس دور کو ماہرین نے green sahara  کا نام دیا، جس نے اس خطے کو مزید خشک کر دیا، اس کی خشکی کا یہ حال ہو گیا تھا کہ یہ آج کے زمانے سے بھی زیادہ خشک ہو گیا تھا۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین نے Lamont-Doherty Core Repository کے مہتمم حضرات کے ساتھ کام کیا اور یہ پتا چلایا کہ شمال مشرقی افریقا کی سمندری مواد یا تہہ نشین کی ایک تہہ کے آثار ملے ہیں جو لگ بھگ  55,000 سے 70,000  سال قدیم ہے۔  ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جینیاتی ریسرچ اس طرف اشارہ دیتی ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے کے لوگوں نے افریقا سے یوریشیا کی طرف نقل مکانی کی تھی۔

محققین کی ٹیم نے یہاں کی سمندری تہہ سے متعدد نمونے اس طرح جمع کیے کہ ہر 4 انچ (10 سینٹی میٹر) کے بعد نمونے لیتے چلے گئے۔  اس سے یہ ہوا کہ ماہرین کو لگ بھگ ہر 1600 سال کی مدت کے بعد یا اس مدت کے درمیانی عرصے کے نمونے مل گئے۔ اس کے بعد ماہرین نے alkenones نامی کیمیکلز بھی تلاش کیے جو ایک خاص قسم کی بحری الجائی سے بنتے ہیں۔ اس سے پانی کے درجہ حرارت کی ترکیب کے بارے میں معلوم ہو سکتا تھا کہ پانی کب اور کس دور میں گرم تھا یا سرد۔ ماہرین نے قدیم leaf wax کا بھی تجزیہ کیا جو سمندر کے اندر کھلا یا پھولا ہوا ہوتا تھا، اس سے ماہرین کو بارش کے نمونے اور انداز کی تعین کرنے میں مدد ملی تھی۔ ایک ماہر Jessica Tierney, UA associate professor of geosciences نے کافی غور و خوض کے بعد خود سے ہی ایک سوال یہ پوچھا  کہ آخر آب و ہوا کی اس تبدیلی نے اس خطے کے رہنے والوں پر اس وقت کوئی اثرات ڈالے تھے یا نہیں جب انہوں نے یہاں سے یعنی افریقا سے ہجرت یا نقل مکانی کی تھی۔  ان کا کہنا تھا : ہمارا ڈیٹا کہتا ہے کہ جب شمالی افریقا سے ہماری زیادہ تر انواع ہجرت کر گئی تھیں تو اس وقت یہ خطہ خشک تھا مگر نم یا گیلا نہیں تھا۔

اس تحقیقی مطالعے کا اہتمام یونیورسٹی آف ایری زونا میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کیا تھا جس نے Lamont-Doherty Core Repository کے مہتمم حضرات کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔  اس نے یہ پتا چلایا تھا کہ شمال مشرقی افریقا کی سمندری تہہ نشین کی ایک تہہ کے آثار ملے ہیں، جو لگ بھگ  55,000 سے 70,000  سال قدیم ہے۔ ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جینیاتی ریسرچ اس طرف اشارہ دیتی ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے کے لوگوں نے افریقا سے یوریشیا کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ ماہرین کی اس ٹیم نے ہارن آف افریقا سے جمع کیے گئے کچھ نمونوں کا تجزیہ بھی کیا جو 1965ء میں لیے گئے تھے  اور یہ پتا چلایا گیا تھا کہ ان میں 2 لاکھ سال پرانی تلچھٹ موجود ہے۔ اپنی اس تحقیق اور اس کے متوقع نتائج کے بعد ماہرین اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب ہوئے کہ قدیم آب و ہوا کس طرح تبدیل ہوئی ہو گی۔ اس سے پہلے ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ اس مدت کے دوران آب و ہوا کی تبدیلی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ ماہرین کی اس تمام ریسرچ کے بعد یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس خطے کی آب و ہوا کس طرح زیادہ ٹھنڈی اور زیادہ خشک ہوئی تھی۔

ایک تحقیقی ماہر Tierney کا کہنا ہے: ہمارا ڈیٹا بتا رہا ہے کہ اس خطے سے انسانوں کی نقل مکانی یا ہجرت کا واقعہ خطے میں ہونے والی ایک بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلی کے بعد ہی پیش آیا تھا۔ جب اس خطے میں ماحولیاتی صورت حال مسلسل بگڑتی چلی گئی اور انسان کے لیے یہاں رہنا اور زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تو پھر انہوں نے ان حالات سے گھبرا کر اس خطے کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ خطے کے زیادہ خشک ہو جانے نے بھی لوگوں کو پریشان کر دیا تھا، ممکن ہے یہی صورت حال لوگوں کی یہاں سے منتقلی کا سبب بنی ہو۔

آسٹریلیا میں قدیم تاریخی حقائق کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ پہلے ہمارے سائنسی اور ارضیاتی ماہرین کا خیال تھا  کہ اس خطے میں انسان 20,000 سے 65,000  پہلے پہنچا تھا، مگر ایسا نہیں ہے، یہاں انسان اس سے بھی پہلے پہنچا ہو گا۔ اس انکشاف کا مطلب یہ ہوا کہ انسان آسٹریلیا کے منفرد میگا فانا علاقوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں لاکھوں سال پہلے آباد ہوا ہو گا۔ میگا فانا برفانی دور کے ان لحیم شحیم زمینی جانوروں کو کہا جاتا ہے جیسے مموتھ۔ یہ جنگل میں پائے جانے والے بہت بڑے زمینی جانوروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے خاص طور سے ہاتھی، زرافے، دریائی گھوڑے، گینڈے، قدیم دور کے بڑے ہرن یا elk، اور امریکی بڑا گدھ کرگس وغیرہ۔برفانی دور کے بعد ماضی بعید کے جانور دنیا سے مٹ گئے تھے، جب ماہرین اس عہد کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو مذکورہ بالا ٹرم میگا فانا استعمال کی جاتی ہے۔

کرہ ارض پر 12,000 سال پہلے جو قدیم زمینی جانور دندناتے پھرتے تھے، وہ اب دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں، مگر ارضیاتی ماہرین اب صرف اس حوالے سے بحث و تمحیص کرتے ہیں کہ یہ جانور کیوں اور کیسے مٹ گئے؟ اس ضمن میں ماہرین دو نظریات پیش کرتے ہیں: ایک یہ کہ ان کے خیال میں چوں کہ انسانوں نے ان جانوروں کا بہت زیادہ شکار کیا تھا، اس وجہ سے یہ قدیم جانور مٹ گئے اور دوسرا نظریہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بھی یہ تاریخی جانور کرہ ارض سے ختم ہو گئے۔ ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے Madjedbebe ملنے والے جو نمونے دیکھے، ان سے انہوں نے یہ اندازہ لگایا  کہ اس خطے کے شمالی علاقے میں چٹانی پتھروں کا ایک گھر بھی موجود ہے، جو یہاں کے ابتدائی آبادکاروں نے اس وقت آباد کیا تھا جب وہ یہاں پہنچے تھے۔ یہاں سے 10,000 سے زیادہ پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں اور نارنجی مائل زرد (کھریا مٹی والے) کے ساتھ ساتھ پیلے کچھ اور اوزار بھی ملے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ پودوں کی قدیم باقیات بھی ملی ہیں اور ہڈیاں بھی، یہ سب نادر و نایاب اشیا 1973 میں اسی مقام سے زمین کھود کر نکالی گئی تھیں۔

ان سبھی ماہرین کے اجتماعی تجزیے اور گہری تحقیق کے نتیجے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ انسان آسٹریلیا کی اس سر زمین پر اس زمانے سے بھی کہیں پہلے پہنچا تھا جس کے بارے میں پہلے ماہرین نے اندازہ لگایا تھا۔ اس نئی اسٹڈی کے بعد ماہرین اس خیال پر متفق ہو گئے ہیں کہ انسان آسٹریلیا لگ بھگ 65,000 سال قبل پہنچا تھا گویا پچھلے اندازے کے مقابلے میں 18,000 سال قبل پہنچا تھا۔ یہاں اس بات کا سوچنا بھی بڑی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ ہمارے آباواجداد نے آب و ہوا کا اور اس کے اثرات کا کس طرح مقابلہ کیا ہو گا اور اس بدلتی ہوئی صورت حال سے کیسے نمٹے ہوں گے۔ ماہرین کے خیال میں یہ بات خاصی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ انسان نے افریقا میں آب و ہوا کی تبدیلی کا اس طرح مقابلہ کیا  کہ متعلقہ خطے کے حالات سے گھبرا کر وہ وہاں سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقے یا دوسرے خطے میں چلا گیا اور اس طرح خود کو آب و ہوا کے منفی اثرات سے محفوظ کر لیا۔

No comments.

Leave a Reply