امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے گلبدین حکمت یار سے مدد مانگ لی گئی

افغان حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار

افغان حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نئی کوششوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے اس سلسلے میں افغان حزب اسلامی کے سربراہ Gulbuddin Hekmatyar سے مدد طلب کی تھی۔ جس کے بعد حکمت یار ترکی پہنچ گئے ہیں، جہاں وہ اسلامی تحریکوں کے سربراہوں سے ملاقات کریں گے۔ حزب اسلامی کے ترجمان Aziz Hameed کا کہنا ہے کہ Gulbuddin Hekmatyar ترکی میں مقیم اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں، حکمران جماعت Justice and Development Party اور ترک صدر Recep Tayyip Erdogan کی دعوت پر ترکی گئے ہیں اور وہان افغان طالبان کے بعض رہنمائوں سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس دورے میں افغانستان میں قیام امن کے لیے نئی کوششوں کے آغاز اور حزب اسلامی کے امن منصوبے کے تحت افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے امریکی افواج کے انخلا پر بات چیت کی جائے گی۔

Aziz Hameed کے مطابق Gulbuddin Hekmatyar یار ترک صدر Recep Tayyip Erdogan کے علاوہ ترکی میں مقیم حماس اور اخوان المسلمین کے رہنمائوں سے بھی ملاقات کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں افغانستان میں قیام امن کے لیلے اسلامی تحریکوں سے مدد لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ ترکی سے سعودی عرب جائیں گے، جہاں عمرے کی ادائیگی کے علاوہ سعودی حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔ انہیں عمرے کی دعوت Saudi Crown Prince Mohammad bin Salman نے دی ہے۔ سعودی علی عہد Gulbuddin Hekmatyar سے افغان مسئلے کے حل کے لیے حزب اسلامی کے منصوبے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق Gulbuddin Hekmatyar یار حزب اسلامی کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ منگل کے روز ایک خصوصی طیارے کے ذریعے Kabul سے Istanbul پہنچے، جہاں Justice and Development Party کے رہنمائوں نے ان کا استقبال کیا۔ ذرائع کے مطابق حزب اسلامی کا وفد ترکی میں موجود طالبان رہنمائوں کے ساتھ اس سیاسی منصوبے کے بارے میں بات چیت کرے گا، جس میں Gulbuddin Hekmatyar نے تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ 3 سال کے اندر افغانستان سے انخلا کا اعلان کر دے تو وہ افغان طالبان کو نہ صرف مذاکرات بلکہ جنگ بندی پر بھی رضامند کر سکتے ہیں اور جنگ بندی کے لیے وہ طالبان کی ضمانت دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق Gulbuddin Hekmatyar نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران Haqqani Network اور طالبان کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے لیے کئی رابطے کئے ہیں اور اس ضمن میں انہیں سابق افغان صدر حامد کرزئی کی حمایت بھی حاصل ہے۔

Gulbuddin Hekmatyar کے غیر ملکی دورے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ترکی کے ذریعے روس اور خطے کے دیگر مالک، جن میں پاکستان اور ایران بھی شامل ہیں کی مدد سے افغان مسئلے کے سیاحی حل کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔ ذرائع نے بتایا کہ Gulbuddin Hekmatyar ترک صدر Recep Tayyip Erdogan کے ساتھ ملاقات میں اپنا سیاسی منصوبہ پیش کریں گے۔ جبکہ وہ دورہ سعودی عرب میں سعودی حکام سے بھی مدد کی درخواست کریں گے، جن کے امریکی صدر Donald Trump کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ حزب اسلامی کے ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان میں فوجی آپریشن افغان قوم اور امریکا دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 15 دنوں سے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں، جن کے نتیجے میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نہ صرف افغان حکومت بلکہ طالبان پر بھی مذاکرات کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں خونریزی روکنے کے لیے ترکی اور سعودی عرب نے بھی اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ترکی نے 10 ہزار سے زائد افغان خواتین کو پولیس تربیت فراہم کرنے اور 8 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کو بھی تربیت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت ترکی میں 342 خواتین پولیس اہلکار تربیت حاصل کر رہی ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان نے رضامندی ظاہر کر دی ہے کہ اگر ترکی اور سعودی عرب ضمانت دے دیں تو وہ مذاکرات شروع کر سکتے ہیں۔ Gulbuddin Hekmatyar ، ترکی اور سعودی علرب کے حکام اگر سیاسی منصوبے پر متفق ہو جاتے ہیں تو Ankara یا سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دسمبر کے آخری ہفتے میں مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ذرائع کے بقول اس حوالے سے پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے بھی دو روز قبل سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔جبکہ پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی اہلکاروں نے بھی اس ضمن میں متحدہ عرب امارات کے دورے کئے ہیں۔ اسلامی ممالک افغانستان میں پاکستان کو کلیدی کردار دینا چاہتے ہیں تاکہ افغان مسئلہ حل ہو سکے۔

No comments.

Leave a Reply