جاپان اور پاکستان کی معیشت

جاپان اور پاکستان کی معیشت

جاپان اور پاکستان کی معیشت

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

غیر متوقع طور پر سفارتخانہ پاکستان کا ہال جاپانی کاروباری شخصیات، جاپانی وزارت خزانہ اور تجارت کے اداروں کے حکام سے پوری طرح بھرا ہوا تھا، سفیرِ پاکستان ڈاکٹر Asad Majeed Khan نے تقریب کی میزبانی کے فرائض جاپانی زبان میں ہی سنبھال کر جاپانی کاروباری شخصیات کی آدھی مشکلات دور کر دیں کیونکہ جاپانی عوام کیلئے جاپانی زبان کسی نعمت سے کم نہیں سمجھی جاتی اور خوش قسمتی سے سفیر پاکستان بھی جاپانی زبان میں خاصی مہارت رکھتے ہیں، اس وقت سفارتخانہ پاکستان، Japan External Trade Organization اور Bank of Tokyo Matsubishi UFJ کے زیراہتمام پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کے موضوع پر ہونے والے اہم سیمینار میں شریک تھا، یہ پہلا موقع نہیں تھا ماضی میں بھی ایسے سیمینار منعقد ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان میں جاری سیاسی بحران سمیت دیگر عوامل کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں اہم جاپانی کاروباری اداروں کی شرکت نہ صرف حیران کن تھی بلکہ اس بات کا بھی پتہ دے رہی تھی کہ دنیا کے لئے پاکستان اس وقت کتنی اہمیت رکھتا ہے، جاپان کی بڑی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں اس اہم سیمینار میں شرکت کیلئے پاکستان سے Board of investment کے ڈائریکٹر جنرل Shah Jahan Shah کو دعوت دی گئی تھی جبکہ جاپان کی جانب سے جاپان کی معروف کمپنی Marubeni  Corporation اور   Corporation Marubeni کے چیئرمین Mr. Teruo Asada جو جاپان پاکستان بزنس کوآپریشن کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں موجود تھے۔ جبکہ جاپان، پاکستان ایسوسی ایشن کے چیئرمین Mr. Shun Imaizumiسمیت JETRO and Bank of Tokyo-Mitsubishi کے نمائندے بھی جاپانی سرمایہ کاروں کے سوالوں کے جوابات دینے کیلئے شریک تھے،

پاکستان کیلئے یہ ایک بہت ہی مثبت تقریب تھی جس میں صرف 130 جاپانی شخصیات نہیں بلکہ 103 جاپانی کاروباری اداروں کے نمائندے موجود تھے جن میں سے اگر صرف 30 اداروں نے ہی پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کر دی تو پاکستان کو معاشی طور پر انتہائی فائدہ ہو سکتا ہے۔ تقریب کے بعد سوال جواب کا دور شروع ہوا منتظمین نے اپنی حد تک مکمل کوشش کی کہ سرمایہ کاروں کو مطمئن کر سکیں لیکن ایک سوال ہر شخص کی زباں پر تھا کہ حکومت کی قلیل مدت میں تبدیل ہوتی معاشی پالیسیاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں حکومت پاکستان کی معاشی پالیسیاں طویل مدت کیلئے ہونی چاہئیں، جبکہ بورڈ آف انوسٹمنٹ جو دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرتا ہے، اسے بھی بااختیار ہونا چاہیے، سفیر پاکستان ڈاکٹر Asad Majeed Khan نے گفتگو کرتے ہوئے اسے ایک کامیاب تقریب قرار دیا۔ لیکن پاکستان کے زمینی حقائق بھی، غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری کرتے وقت نظر میں رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس سے حکومت کی کمزوری کا پیغام پوری دنیا کو گیا ہے،

دوسری جانب پاکستان میں سرمایہ کاری کے اتنے اہم ادارے بورڈ آف انوسٹمنٹ میں بھی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لانا ہو گا جنہیں مختلف ممالک کے حوالے سے زبان اور اخلاقی تربیت بھی فراہم کرنا ہو گی تاکہ جب بھی انہیں کسی دوسرے ملک میں سیمینار میں شرکت کا موقع ملے تو انھیں اس ملک کی زبان کے حوالے سے بنیادی معلومات ہوں، ان کے اخلاق اور آداب کے حوالے سے آگاہی ہو، پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے حکومتی پالیسیوں سے وہ مکمل طور پر آگاہ ہوں، شخصیت کے اعتبار سے وہ متاثر کن ہوں، صرف اثروسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر اتنے اہم عہدے لے کر نہ صرف ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہو گا اور اس اہم ادارے کو بھی تباہی سے بچانا ہو گا، بہت زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر میں صرف یہ کہہ کر اس موضوع سے ہٹوں گا کہ پاکستان میں جب تک صحیح جگہ صحیح آدمی کو نہیں لگایا جائے گا پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے اور نہ ہی ملک ترقی کر سکے گا۔

جاپان اور پاکستان کے قیام میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ بہت سے مورخین دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان کی تعمیرنو سے جاپان کی عمر کا تعین کرتے ہیں جبکہ پاکستان بھی اسی زمانے میں وجود میں آیا تھا تاہم دونوں ممالک کے قیام کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کی معیشت اور عوام کے معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ماضی کے ان 70 برسوں میں جاپان دوسری بڑی معیشت کے طور پر سامنے آیا جو اب چین کے بعد تیسری بڑی معیشت کے طور پر موجود ہے، جاپان کی موجودہ سالانہ فی کس آمدنی 40 ہزار ڈالر سے زائد ہے جبکہ جاپان کی صرف گزشتہ برس کی برآمدات 620 ارب ڈالر اور درآمدات 580 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں، باوجود اس کے کہ جاپان کی آبادی صرف ساڑھے 12 کروڑ افراد پر مشتمل ہے جس میں سے بھی 35 فیصد افراد کا تعلق 60 سال سے زائد عمر سے ہے یعنی بوڑھے افراد جاپان کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی ہیں لیکن اس کے باوجود جاپان کی معیشت میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی صرف جاپان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کے حوالے سے حاصل ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار انتہائی حیران کن ہیں جبکہ بطور پاکستانی ہمارے لیے کافی مایوس کن بھی ہیں تاہم بطور قوم ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک میں آنے والی حکومتیں پاکستان کو ترقی دینے کے نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ ملک کی برآمدات میں اضافے کیلئے خوبصورت نعرے اور خواب دکھا کر اقتدار میں آتی ہیں لیکن دنیا بھر کی معیشت دیکھنے کے بعد جب ہم اپنے ملک کی جانب دیکھتے ہیں تو کافی مایوسی نظر آتی ہے، اس وقت دنیا بھر میں گزشتہ سال سب سے زیادہ برآمدات کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہمارا پڑوسی ملک چین ہے جس کی گزشتہ سال مجموعی برآمد 2 ہزار ارب ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی جس کے بعد امریکہ ہے جس کی مجموعی برآمدات 1470 ارب ڈالر ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر صرف 8 کروڑ 20 لاکھ آبادی والا یورپی ملک جرمنی ہے جس کی مجموعی برآمدات 1283 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں، چوتھے نمبر پر جاپان اپنی 620 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ موجود ہے اور بھارت بھی عالمی درجہ بندی میں 17ویں نمبر پر ہے اس کی برآمدات 271 ارب ڈالر ہیں جبکہ صرف 85 لاکھ آبادی والا ملک اسرائیل، جس نے پوری مسلم دنیا کو اکیلے ہی ٹکر دے رکھی ہے، اس کی برآمدات بھی 67 ارب ڈالر سے زائد ہیں، بنگلہ دیش کی برآمدات بھی 31 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور آج بنگلہ دیش دنیا بھر میں 61ویں نمبر پر ہے، جبکہ پاکستان صرف 23 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ دنیا بھر میں 67ویں نمبر پر ہے یعنی بنگلہ دیش جیسے ملک بھی ہم سے آگے نکل چکے ہیں، صرف ایک ہی نکتے میں پاکستان کے مسائل کی وجہ اور اس کا حل بھی موجود ہے کہ، صحیح جگہ صحیح آدمی لگانا، یہ ایک بات ہمارے قومی مرض کی ایسی نشاندہی ہے کہ صرف اس پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان کے آدھے سے زیادہ مسائل بہت کم وقت میں حل ہو سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply