گاندھی کا قتل عالمی طاقتوں کی سازش کا نتیجہ تھا؟

قائد اعظم اور مہاتما گاندھی نے امن پسندی کا جو خواب دیکھا تھا ، کیا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟

قائد اعظم اور مہاتما گاندھی نے امن پسندی کا جو خواب دیکھا تھا ، کیا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟

نیوز ٹائم

یہ 30 جنوری 1948ء کی بات ہے۔ ہندوئوں کے مشہور لیڈر، Gandhi دہلی کے صنعت کار، GD Birla کی ملکیت  Birla House میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ روزانہ شام کو کوٹھی کے Backyard واقع میدان میں جمع ہوئے لوگوں کے سامنے خطاب کرتے اور عموماً بھائی چارے و محبت کی باتیں بتاتے تھے تاکہ ہندو، پاک میں جاری ہندو مسلم فساد ختم ہو سکے۔ 30 جنوری کو شام 5 بجے جب Gandhi اس میدان میں داخل ہوئے تو Nathuram Vinayak Godse’s نے گولیاں چلا کر انہیں مار ڈالا۔ یوں وہ شاطرانہ سازش اختتام کو پہنچی جس کے تانے بانے برطانیہ اور امریکا کے حکمران طبقوں نے انتہا پسند ہندو لیڈر اور بھارتی حکومت کے اصل کرتا دھرتا، Sardar Hirubhai M. Patel وزیر داخلہ نے تیار کیے تھے۔ اس عالمی سازش کے بہت سے پہلو پردہ اخفا میں ہیں مگر اب وہ رفتہ رفتہ افشا ہو رہے ہیں۔Mohandas Karamchand Gandhi متنازع شخصیت ہیں۔ مخالفین انہیں عیار سیاست دان اور ڈرامے باز قرار دیتے ہیں۔ چاہنے والوں کی نظر میں وہ امن و محبت کی تبلیغ کرنے والے مہاتما ہیں جو عمر بھر مصیبت زدہ اور دکھی انسانوں کی مدد اور خدمت کرتے رہے۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ 20ویں صدی کی ہندوستانی سیاست میں وہ صف اول کے رہنمائوں میں شامل ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کی خاطر ہی انھوں نے اپنی جان بھی قربان کر دی۔ بھارتی سرکار کا موقف یہ ہے کہ Nathuram Vinayak Godse’s اور اس کے ساتھی کٹر ہندو اور شدت پسند تنظیموں  مثلاً Hindu Mahasabha اور Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS)سے تعلق رکھتے تھے انہیں اس امر پر شدید غصہ تھا کہ گاندھی جی پاکستان اور مسلمانوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ جبکہ (بقول ان کے) پاکستانی مسلمان پاکستان میں آباد ہندوئوں اور سکھوں کو قتل کر رہے تھے۔ اسی بات پر ان کٹر ہندوئوں نے گاندھی کو قتل کر دیا۔

اب بھارت کے ایک دانشورو مورخ، ڈاکٹر (Pankaj Phadnis) یہ پوشیدہ نکتہ سامنے لائے ہیں کہ Gandhi کا قتل دراصل مغربی طاقتوں یا سپر پاورز کی سازش تھی۔ یہ اس لیے تیار کی گئی تاکہ دونوں نوزائیدہ اور طاقتور ممالک بھارت اور پاکستان کے مابین کبھی امن قائم نہ ہو سکے اور وہ باہم ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں۔ اس طرح برطانیہ اور امریکا دونوں ملکوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے خوب کمائی کرنا چاہتے تھے۔ گویا 1947ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دشمنی و نفرت پیدا کرنا برطانیہ اور امریکا کے مفاد میں تھا۔ اور پچھلے 71 برس کی تاریخ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دونوں ملک کھربوں روپے مالیت کا برطانوی، امریکی اور مغربی اسلحہ خرید چکے۔ ڈاکٹر Pankaj Phadnis  پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے۔ 1996 میں جب وہ ممبئی میں ملازمت کر رہے تھے تو ایک ایسے کرائے کے فلیٹ میں رہے جہاں مشہور ہندوستانی لیڈر Damodar Savarkar  1883، 1966 ء نے بھی کئی سال گذارے تھے۔  فلیٹ کے ساتھ ہی ایک لائبریری تھی جہاں ہندوستان کی تاریخ پر کتابیں بکثرت موجود تھیں۔ انہی کتب کے باعث انجینئر Pankaj Phadnis تاریخ میں دلچسپی لینے لگے۔ بھارت اور پاکستان میں Damodar Savarkar انتہا پسند ہندو لیڈر اور مسلم دشمن کہلاتا ہے مگر وہ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ جنگ آزادی 1857ء Damodar Savarkar کی مشہور ترین کتاب ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1907 میں طبع ہوا تھا۔ اس ایڈیشن میں Damodar Savarkar نے جنگ آزادی 1857ء میں مسلمان لیڈروں اور مجاہدین کا تذکرہ عزت و احترام اور محبت سے کیا ہے۔  تب وہ ہندو مسلم اتحاد تحریک کا سرگرم رہنما تھا۔ اسی غرض سے Damodar Savarkar’s Abhinav India  سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی جس میں ہندو اور مسلمان طلبہ اور نوجوان شامل تھے۔ بعد میں کٹر ہندو لیڈر Bal Gangadhar Tilak کے زیر اثر آ جانے کے وجہ سے Damodar Savarkar بھی ہندو قوم پرستی کی جانب مائل ہو گیا۔ ڈاکٹر Pankaj Phadnis اسی Damodar Savarkar کے گرویدہ ہوئے جو ہندو مسلم اتحاد کا داعی اور انسانیت پسند لیڈر تھا۔  وہ پھر ہندوستانی تاریخ سے متعلق کتابوں کا مطالعہ دلچسپی و سرگرمی سے کرنے لگے۔ انہیں معلوم ہوا کہ 1939ء میں انڈیا مسلم لیگ اور Damodar Savarkar کی Hindu Mahasabha جماعت نے مل کر Sindh،  صوبہ سرحد اور بنگال میں وزارتیں بنائیں تھیں۔  کتابوں کا مطالعہ انہیں تقسیم ہند اور گاندھی کے قتل جیسے موضوعات کی گہرائی میں بھی لے گیا۔

سینکڑوں تاریخی کتب کے مطالعے سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ برطانیہ اور امریکا دونوں عالمی طاقتیں بھارت اور پاکستان میں دوستی اور اتحاد ہونا دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ اس طرح اسلحے کی فروخت کے علاوہ برطانوی و امریکی ایکسپورٹ پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے تھے کیونکہ دونوں نئے ممالک قدرتاً باہمی تجارت پہ زور دیتے۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے نہ صرف برصغیر میں ہندو، مسلم فسادات کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا بلکہ بھارتی و پاکستانی حکومتوں میں شامل اپنے ایجنٹوں کی مدد سے Gandhi اور Quaid-e-Azam کو جلد اگلے جہاں پہنچا دیا۔ یاد رہے Quaid-e-Azam کی وفات جن پراسرار حالات میں ہوئی بعض پاکستانی مورخین اسے قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔ 2012میں ڈاکٹر Pankaj Phadnis US Southern University in Louisiana سے پی ایچ ڈی کی ڈگری پائی۔ ان کے Doctorate کا موضوع تھا: بھارت اور پاکستان کے پرامن تعلقات کی تشکیل میں Information Technology کا کردار تاکہ عالمی خوشحالی جنم لے سکے۔ درحقیقت ڈاکٹر Pankaj Phadnis پچھلے 20 سال سے کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان تمام اخلاقات ختم کر لیں تو انہیں یقین ہے کہ اس کے بعد نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور جنم لے سکتا ہے۔ آج کل ڈاکٹر Pankaj Phadnis ایک انگریزی کتاب The Shroud of Gandhi and the Satanic Force لکھ رہے ہیں۔ اس کتاب میں ان عوامل و واقعات کا ذکر ہے جن کے باعث ایک بین الاقوامی سازش سے نہ صرف Gandhi کو قتل کیا گیا بلکہ اصل مجرم بھی پردہ اخفا رکھے گئے۔ ڈاکٹر Pankaj Phadnis اپنی مختلف تحریروں میں درج بالا واقعات کا جستہ جستہ تذکرہ کر چکے۔ ان کا مربوط بیان قارئین ایکسپریس کے لیے پیش ہے۔  یہ داستان بڑی حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔

لاہور جانے کا فیصلہ:

3 نومبر 1947ء کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے تقسیم ہند کا منصوبہ منظور کر لیا۔ Gandhi چاہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان مل جل کر رہیں مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت چاہتی تھی اور کانگریسی لیڈروں Pandit Nehru اور Sardar Patel نے یہ مطالبہ منظور کر لیا۔ Gandhi ناراض ہو کر کانگریس کے معاملات سے تقریبا الگ تھلگ ہو گئے۔ تب ہندوستان بھر میں تمام اہم انتظامی عہدوں پر برطانوی افسر فائز تھے۔تقسیم ہند کا مقصد یہ تھا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام امن و آشتی سے اپنے اپنے مذہبی و معاشرتی اصولوں و روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ لیکن بنیادی طور پہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے بھی کچھ شدت پسند لیڈروں نے اس موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کرا دیئے۔ برطانوی انتظامیہ نے فسادات کی روک تھام کے لیے موثر انتظام نہیں کیا کیونکہ یہ فساد برطانیہ کے مفاد میں تھا۔ اس طرح ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی دونوں ممالک تجارتی و عسکری لحاظ سے برطانوی اسلحے اور امداد کے محتاج رہتے۔ گاندھی مگر فساد زدہ بھارتی علاقوں کا دورہ کرنے لگے۔ وہ ہر علاقے میں ہندو اور مسلمان لیڈروں کو اکٹھا کرتے اور ان پر زور دیتے کہ وہ امن و محبت کی اپیل کریں۔اوائل ستمبر 1947ء میں انہوں نے لاہور، پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ وہاں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں امن کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے گورنر جنرل پاکستان، Muhammad Ali Jannah کو خط لکھا۔ Gandhi پاکستان کو بھی اپنا وطن سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جانے کے لیے مجھے پاسپورٹ کی قطعاً ضرورت نہیں۔ Jannah نے خوش دلی سے Gandhi کو پاکستان آنے کی دعوت دے دی۔ انہوں نے اپنے Gujarati ہم وطن کو یہ بھی لکھا کہ وہ دونوں اکٹھے پاکستان و بھارت کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے تاکہ نفرت اور دشمنی کی بھڑکتی آگ پر پانی ڈالا جا سکے۔ اوائل ستمبر میں گاندھی کلکتہ میں تھے۔ وہ پاکستان جانے کے لیے 9 ستمبر کو دہلی پہنچ گئے۔ تب تک بھارتی دارالحکومت میں ہندو بلوائی مسلم علاقوں پر حملے شروع کر چکے تھے۔ کئی مسلمان شہید ہو گئے، زندہ بچ جانے والوں نے لال قلعے میں پناہ لی۔ گاندھی نے پاکستان جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور فیصلہ کیا کہ وہ پہلے دہلی میں امن و محبت کا پرچار کریں گے۔ گاندھی جب بھی دہلی آتے، تو بھنگی کالونی میں بھنگیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ مگر وزیر داخلہ، Sardar Patel نے اسے سیکیورٹی رسک قرار دے دیا۔ Sardar Patel کے اصرار پر گاندھی Birla House مقیم ہو گئے۔ وہ اس کے Backyard موجود میدان میں روزانہ لوگوں سے ملنے ملانے اور تقریر کرنے لگے۔ ان کی تقریر سے قبل Holy Quran ، Bible اور Bhagut Gita کا متن پڑھ کر سنایا جاتا۔کئی ہندو Holy Quran پڑھنے پر احتجاج کرتے مگر Gandhiji یہی جواب دیتے کہ Quranic verses میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں، ان میں امن، بھائی چارے، محبت اور رحم کی باتیں درج ہیں۔ مگر اس زمانے میں شدت پسندوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے عام لوگوں کے دل نفرت اور دشمنی سے بھر گئے تھے۔ غصہ ان کی عقل کو کھا گیا تھا۔ اسی لیے وہ کوئی عقل والی بات سننے کو تیار نہ تھے۔

پاکستان کے لیے بھوک ہڑتال:

22 دسمبر کو گاندھی نے اپنی محفل میں یہ اعلان کیا ہندو بلوائیوں نے Hazrat Qutbuddin Bakhtiar کاکی کی درگارہ تباہ و برباد کر ڈالی ہے۔ یہ مسلمانوں ہی نہیں ہندوئوں کے بھی بزرگ ہیں۔ میری تمام ہندوئوں، سکھوں اور حکومت سے اپیل ہے کہ درگاہ کی تزئین و آرائش کی جائے۔ نیز دہلی میں مسلمانوں کے جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں، یہ بات ان پر بھی مطبق ہوتی ہے۔ گاندھی نے دہلی میں کئی مہاجر کیمپوں کا بھی دورہ کیا اور ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مہاجرین سے ملے۔ انہی دنوں Sardar Patel نے تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والا مالی حصہ 55 کروڑ روپے روک لیا۔ Sardar Patel کا موقف یہ تھا کہ پاکستان نے کشمیر میں حملہ کر دیا ہے لہذا اب اسے یہ حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ پاکستان اس رقم سے اسلحہ خرید کر بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔ گاندھی کا موقف تھا کہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور بددیانتی کے مترادف۔ جب Sardar Patel نے 55 کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا، تو 12 جنوری کی شام گاندھی نے اعلان کیا  کہ وہ اگلے دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دیں گے۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ اس طریقے سے بھارت اور پاکستان میں امن قائم کرنا اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کو قریب لانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ گاندھی 13 جنوری کی سہ پہر سے بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔ اس واقعے نے لوگوں میں متضاد خیالات پیدا کر دیئے۔ پاکستان سے آئے ہندو اور سکھ مہاجر طیش میں بھرے بیٹھے تھے۔ اب وہ مسلمانوں سے انتقام چاہتے تھے۔

چنانچہ انہوں نے نعرہ لگا دیا:

مرے ہے، تو مرنے دو خون کا بدلہ خون سے لیں گے مگر دہلی کے رہائشی ہندو اور سکھوں پر گاندھی کے بھوک ہڑتال کا مثبت اثر ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف منفی کارروائیاں روک دیں۔ کئی علاقوں میں ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر امن و آشتی کے جلوس نکالے اور ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں۔ حتی کہ Hindu Mahasbha اور JI کے لیڈر مل کر گاندھی کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ جوں جوں گاندھی کی طبیعت ناساز ہوئی، پاکستان سے بھی ان کی خیریت و عافیت کے پیغام آنے لگے۔ بھارت میں پاکستانی سفیر، Zahid Hussein ، گاندھی جی سے ملنے آئے اور انہیں بھوک ہڑتال ختم کرنے کا کہا۔ آخر 18 جنوری کو بھارت کے سبھی ممتاز ہندو اور مسلمان لیڈر Birla House میں جمع ہوئے۔ انہوں نے گاندھی کے سامنے یہ معاہدہ تحریر کیا کہ وہ جاری فرقہ وارانہ فسادات روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ یہ کوئی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی معاہدہ تھا۔ اس کے بعد گاندھی نے بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اب وہ جلد پاکستان روانہ ہونا چاہتے تھے۔

خفیہ ایجنسیاں حرکت میں:

برطانوی اور امریکی حکومتیں حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ اگر گاندھی اور Jannah نے اکٹھے متحدہ پنچاب کا دورہ کیا تو نہ صرف فرقہ وارانہ فساد انجام کو پہنچے گا بلکہ پاکستان اور بھارت اتنے قریب آ جائیں گے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل گفت و شنید سے پرامن انداز میں حل کر سکیں۔ یہ صورت حال ان کے مفادات کو شدید ضرب پہنچاتی تھی۔ بلکہ اس طرح سونے کی چڑیا برصغیر پاک و ہند کا علاقہ ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے گاندھی کو راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اپنے مفادات کو محفوظ رکھ سکیں۔ اب برطانوی خفیہ ایجنسی (Special Operations Executive) کے ایجنٹ متحرک کر دیئے گئے۔ یہ ایجنسی حروف عام میں فورس 136 (Force 136) کہلاتی ہے۔ یہ خفیہ ایجنسی جنگ عظیم دوئم کے دوران ایشیائی ممالک میں پوشیدہ مہمات انجام دینے کی خاطر بنائی گئی تھی۔ اس کے افسر برطانوی تھے مگر بیشتر ایجنٹ ہندوستان، ملائیشیا، تھائی لینڈ یا برما سے لیے جاتے۔ اب ہندوستان میں فورس 136 کے ایجنٹ ایسی شخصیات کو تلاش کرنے لگے جو بلا دھڑک گاندھی کو قتل کر سکیں۔ آخر ان کی نظریں Narayan Apte اور Nathuram Vinayak Godse پر جا ٹھہریں۔  یہ دونوں پونہ شہر سے تعلق رکھنے والے Hardcore Hindu Brahman مسلمانوں کے شدید مخالف اور Hindu Mahasbha جماعت کے مقامی رہنما تھے۔ Narayan Apte برطانوی راج سے نبرد آزما ہندوستانی نوجوانوں کو گرفتار کرانے میں فورس 136 کی خفیہ مہمات میں حصہ لے چکا تھا۔ لہذا فورس 136 کے برطانوی افسر اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ 1944ء سے وہ Nathuram Vinayak Godse کے ساتھ مل کر اپنا اخبار نکال رہا تھا۔ اسی میں گاندھی جی کے نظریات اور مسلمانوں پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔ یہ دونوں اپنے آپ کو ہندو دھرم کا چمئپین سمجھتے اور اس کی خاطر مر مٹنے کو بھی تیار تھے۔ اب فورس 136 کے چرب زبان اور پروپینگڈے کے ماہر برطانوی و ہندوستانی ایجنٹ Nathuram Vinayak Godse اور Narayan Apte کو گاندھی کے قتل پر ابھارنے لگے۔ انہوں نے اپنی لچھے دار باتوں سے دونوں جذباتی نوجوانوں کو اتنا زیادہ مشتعل کر دیا کہ وہ سمجھنے لگے، گاندھی کو مار کر اپنے دھرم اور ملک و قوم کے لیے بہت بڑی خدمت انجام دیں گے۔ اس جذباتی فیصلے نے ان میں سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ختم ہو گئی ۔ گاندھی کے قتل کی سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی برطانوی فورس 136 کی ہر ممکن مدد کر رہی تھی۔ خیال ہے کہ جس پستول بریٹا ایم 1934ء سے گاندھی جی کو قتل کیا گیا وہ سی آئی اے کے ایجنٹوں نے ہی Nathuram Vinayak Godse کو فراہم کیا تھا۔ ان دنوں اخبار کی حالت بہت پتلی تھی۔ وہ Hindu Mahasbha کے دیئے گئے چندے سے چل رہا تھا۔ لہذا Nathuram Vinayak Godse اور Narayan Apte کی مالی صورت حال بہت مخدوش تھی۔ ایسے عالم میں وہ بریٹا جیسا نہایت مہنگا غیر ملکی پستول قطعا نہیں خرید سکتے تھے۔  ان کے پاس بریٹا کی موجودگی برطانیہ و امریکا کی مبینہ سازش کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ دہلی کے امریکی سفارت خانے میں تعینات نائب قونصل جنرل Herbert Reiner Jr بھارت میں مقامی سی آئی اے کا سربراہ تھا۔  وہ 1947ء کے اوائل میں ہندوستان پہنچا تھا۔  اسی کے توسط سے Nathuram Vinayak Godse اور Narayan Apte کو بھاری رقم دی گئی تاکہ وہ دیگر واقف کاروں کو بھی ساتھ ملا کر گاندھی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکیں۔ نظریاتی ہم آہگی اور روپے، پیسے کے بل پر آخر ایسا گروہ وجود میں آ گیا جس کا واحد مقصد ہندوئوں کے سب سے بڑے دشمن گاندھی کو قتل کرنا تھا۔ اس گروہ میں شامل سبھی ارکان کٹر ہندو اور Hindu Mahasbha  تھے۔  یہ گروہ وسط جنوری میں دہلی پہنچ گیا اور دو ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوا۔

حملے کا آغاز:

20جنوری 1948ء کی شام یہ لوگ Birla House پہنچے تاکہ گاندھی کو قتل کر سکیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ دو ارکان دستی بم چلائیں گے تاکہ محفل میں افراتفری مچ جائے۔  پھر Douglumber Bachch or Shankar Kumar نے گاندھی جی پر گولیاں چلانی تھیں۔ اس منصوبے سے عیاں ہے کہ حملہ آوروں کے پاس دو پستولیں تھیں۔ تاہم وہاں تعینات ایک چوکیدار ایک حملہ آور Madan Lal کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگا۔ Madan Lal کو گاندھی کی محفل میں دستی بم چلانا تھا۔ چوکیدار اب مدن لال سے سوالات کرنے لگا۔ چوکیدار نے آخر اسے اندر جانے دیا مگر مدن کچھ گھبرا گیا تھا۔ اسی لیے اس سے دستی بم صحیح طرح نہیں چلایا جا سکا اور وہ پھس ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بقیہ ساتھ ارکان وہاں سے فرار ہو گئے۔ Madan Lal کو گرفتار کر لیا گیا۔ Madan Lal پھر پولیس کو ان ہوٹلوں میں لے گیا جہاں اس کے بقیہ ساتھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے وہ وہاں موجود نہ تھے مگر دہلی پولیس نے Nathuram Vinayak Godse’سے سمیت 6 لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ان سے چاقو اور بم برآمد ہوئے۔ انتہای حیرت انگیز بات یہ کہ اگلے دن یعنی 21 جنوری کو پولیس نے Madan Lal اور Nathuram Vinayak Godse’ سے سمیت تمام گرفتار شدگان یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ یہ ثابت نہیں ہو سکا، کہ ہتھیار انہی کے ہیں۔ گویا دہلی پولیس نے کھلم کھلا قانون کو مذاق کا نشانہ بنا ڈالا۔ ظاہر ہے، انگریز افسروں کے حکم پر حملہ آوروں کو رہا کیا گیا تاکہ گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔

یہی وجہ ہے  20 جنوری کے ناکام حملے کے بعد بھی Birla House کی سکیورٹی سخت نہیں کی گئی۔ گاندھی کو ارد گرد گارڈ کھڑے رکھنا پسند نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر موت نے آنا ہے تو وہ پاتال میں بھی انہیں ڈھونڈ لے گی۔ لیکن بھارتی حکومت کو تو احساس ہونا چاہیے تھا کہ گاندھی کی جان شدید خطرے میں ہے مگر ان کی سیکیورٹی کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔ گویا انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ قوم کے باپ کی آسانی سے جان لے سکیں۔آخر 30 جنوری کی شام Nathuram Vinayak Godse’نے بڑے آرام و اطمینان سے اپنے پستول کی 3 گولیاں گاندھی کے سینے میں اتار دیں۔ تاہم وہاں موجود لوگوں کو 4 گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ گویا کسی اور پستول سے بھی گاندھی جی پر ایک گولی چلائی گئی تاکہ ان کی موت کو یقینی بنایا جا سکے۔ سازش کے عیاں ثبوت:

بھارتی حکومت نے 1966 میں گاندھی کے قتل کی چھان بین کرنے کی خاطر Justice Jeevan Lal Kapoor کی سربراہی میں یک رکنی کمیشن بنایا تھا۔ اس Kapoor ر کمیشن نے فیصلہ دیا کہ گاندھی جی پر 3 گولیاں چلائی گئی تھیں۔ حالانکہ 31 جنوری کو گاندھی کی دیکھ بھال پر مامور Manohan پولیس کو بیان دے چکی تھی کہ مقتول کے جسم سے 4 گولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ پھر Kapoor کمیشن نے یہ کیوں قرار دیا کہ گاندھی جی کو 3 گولیاں ماری گئیں؟ کیا اس لیے کہ عوام کا دھیان اصل قاتلوں سے ہٹایا جا سکے اور ان کی توجہ انتہا پسند ہندو حملہ آوروں پر ہی مرکوز ہے جو درحقیقت صرف چارا تھے۔یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ 30 جنوری کی شام ہندوستان میں CIA Chief, Robert Reiner بھی گاندھی جی کی تقریب میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ فورس 136 کے ایجنٹ بھی صحافیوں کا روپ دھارے وہاں موجود تھے۔ یہ , Robert Reiner ہی ہے جس نے نNathuram Vinayak Godse’ کو پکڑا اور اسے فرار نہیں ہونے دیا۔  اس طرح مغربی طاقتیں ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ گاندھی کی مسلم دوستی پالیسی سے مشتعل ہو کر شدت پسند ہندوئوں نے انہیں قتل کر دیا۔ انہوں نے سازش کے تانے بانے اتنی مہارت اور چابک دستی سے بنے کہ وہ اپنا استدلال ثابت کرنے میں کامیاب رہیں۔ Nathuram Vinayak Godse’ اور اس کے ساتھی یقینا مرتے دم تک نہیں جان سکے ہوں گے کہ مغربی طاقتوں نے شطرنج کی جو بازی کھیلی، اس میں وہ ایسے پیادے تھے جن کے ذریعے گاندھی کو راہ سے ہٹا کر خفیہ کھیل جیت لیا گیا۔ فورس 36 1 اور سی آئی اے نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ ان کی سازش طشت ازبام نہ ہونے پائے مگر ایک ثبوت ضرور منظر عام پر آ گیا۔ حیران کن بات یہ کہ کپور کمیشن نے اس ثبوت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اسے غیر متعلق قرار دے کر نظر انداز کر دیا۔ کپور کمیشن کو چھان بین کے دوران (U.C.Malhotra) کی ڈائری ملی جو State Alor کا پولیس کمشنر تھا۔ ڈائری میں 8 فروری 1948ء کی تاریخ میں یہ بیان درج تھا:

30 جنوری کی صبح ایک غیر ملکی سادھو کے روپ میں Alor آیا۔ اس کا قیام شہر کی Hindu Mahasbha تنظیم کے ناظم، کے ہاں تھا۔ جاسوسوں نے خبر دی کہ وہ غیر ملکی طبع شدہ پمفلٹ لایا تھا۔ پمفلٹ میں گاندھی کے قتل کا اعلان درج تھا۔ مجھے یہ خبر سہ پہر 3 بجے ملی جبکہ حقیقی قتل دہلی میں 5 بجے کے بعد ہوا۔ڈائری کا بیان اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی سادھو فورس 136 یا سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ وہ گاندھی کے قتل کی تشہیر کرنے Alor پہنچا تھا۔ تاہم Grydar کے ساتھیوں میں کوئی آدمی مقامی پولیس کا جاسوس تھا۔ اس نے اپنے سربراہ تک یہ سچائی پہنچا دی کہ گاندھی کے قتل کی سازش تیار ہو چکی۔ مغربی حکمران ہر حال میں دنیا والوں پر یہی تاثر چھوڑنا چاہتے تھے کہ گاندھی کی موت انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں ہوئی اور اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اسی لیے اپنی سازش کو انتہائی کامیاب بنانے کے لیے فورس 136 نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عام ہندوئوں اور برہمنوں کے مابین فساد کرانے کا بھی بندوبست کر لیا۔  یاد رہے، گاندھی کے قتل میں ملوث بیشتر مجرم برہمن تھے۔ کپور کمیشن کو اس امر کا بھی ثبوت مل گیا کہ خاص طور پر ریاست مہاراشٹر میں برہمنوں پر حملے کا منصوبہ گاندھی کے قتل سے پہلے ہی بن چکا تھا۔ پونہ اسی ریاست میں واقع ہے۔  بیگم (Sarla Barve) کا شوہر جنوری 1948ء میں پونہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔

 بیگم Sarla Barve  نے کپور کمیشن کو دیئے گئے تحریری بیان میں انکشاف کیا:

میرے شوہر نے ہندو مہاسبھا کے لیڈروں پر نظر رکھی ہوئی تھی کیونکہ وہ مشکوک سرگرمیوں میں محو تھے۔ گاندھی جی کے قتل سے دو دن قبل مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ پونہ کے مشہور غنڈوں، بابو را سنس اور وسانتا را نے برہمنوں کے گھر اور دکانیں جلانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔  کپور کمیشن نے بیگم Sarla Barve کے بیان کو بھی اہمیت نہ دی کیونکہ یہ عیاں کرتا ہے کہ گاندھی کا قتل ایک منظم اور گہری سازش کے ذریعے انجام پایا۔  ڈاکٹر (Pankaj Phadnis اسی سازش کو افشا کرنا چاہتے ہیں۔  چند ماہ قبل انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ گاندھی جی کے قتل کی چھان بین ازسرنو کرنے کا حکم دیا جائے۔  مگر سپریم کورٹ نے معاملہ لٹکا رکھا ہے۔ ظاہر ہے، بھارتی حکمران طبقہ یہ سچائی کبھی آشکارا نہیں کرے گا کہ قوم کے باپ اور مہاتما کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔ گاندھی اور Quaid-e-Azam  دونوں انسان تھے اور ان میں خامیاں بھی تھیں۔ مگر برصغیر پاک و ہند کے دونوں عظیم ترین لیڈروں کی عمر بھر یہی سعی رہی کہ ہندو اور مسلمان امن و محبت سے مل جل کر رہیں۔ دونوں لیڈروں کی منزل یقینا یہ نہیں تھی کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ازلی دشمن بن جائیں۔ یہ صورت حال ہندوستان کو لوٹنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے وارثوں کی پیدا کردہ ہے جو اب تک دونوں پڑوسیوں کو لڑوا کر خوب فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقے مغربی طاقتوں کے پھندے سے نکلنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کیوں نہیں کر رہے؟  کیا دشمنی کے درخت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اب انہیں کاٹنا بہت دشوار ہو چکا؟ Quaid-e-Azam  اور گاندھی نے امن پسندی کو جو خواب دیکھا تھا، کیا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟

No comments.

Leave a Reply