بیت المقدس، عالمی قوانین کے تناظر میں

بیت المقدس، عالمی قوانین کے تناظر میں

بیت المقدس، عالمی قوانین کے تناظر میں

نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تاریخی مقدس شہر یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا افسوسناک اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فلسطینی مسلمان سقوط یروشلم کی 100 سالہ یاد منا رہے ہیں، گزشتہ صدی میں 1917ء  میں دسمبر ہی کے مہینے میں سلطنت عثمانیہ کو برطانوی سامراج کے ہاتھوں شکست کے نتیجے میں، یروشلم سرنڈر کرنا پڑا تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل عالمی سطح پر کسی سرزمین کا مفتوحہ ریاست سے الحاق کر لینے پر حقِ ملکیت تسلیم کر لیا جاتا تھا  لیکن 1928ء میں امریکہ اور فرانس کے مابین معاہدے میں بزور طاقت علاقے فتح کرنا ناجائز اور ناقابل قبول قرار دے دیا گیا، جلد ہی معاہدہ پیرس کو دیگر عالمی ممالک نے بھی تسلیم کر لیا، جس کے مطابق مفتوحہ علاقے کو قانونی طور پر مقبوضہ علاقہ قرار دیا گیا  اور یہ طے پایا کہ قابض طاقت کو قطعی اختیار حاصل نہیں کہ وہ مقبوضہ علاقے کی آبادی یا جغرافیہ میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرے کیونکہ جلد یا دیر اسے مقبوضہ علاقے کو مقامی باشندوں کے حوالے کرنا ہی پڑتا ہے، یہ عالمی معاہدہ آج بھی کارآمد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے جنگ عظیم اول کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تو لیگ آف نیشنز نے فلسطین مینڈیٹ کے تحت برطانیہ کو سرزمینِ فلسطین بطور امانت سونپ دی جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو خود اپنے امورِ حکومت چلانے کے قابل بنانا شامل تھا،  ان حالات میں حکومتِ برطانیہ کی طرف سے بالفور اعلامیہ میں سرزمین فلسطین میں یہودیوں کیلئے نیشنل ہوم قائم کرنے کی حمایت کرنے کا عزم کیا گیا، اس زمانے میں امریکہ کی سرکاری خارجہ پالیسی بھی بالفور اعلامیے کے گرد گھومتی تھی، امریکی کانگریس نے ستمبر 1922ء میں ایک مشترکہ قرارداد یہودیوں کیلئے فلسطین میں ہوم لینڈ قائم کرنے کیلئے منظور کی لیکن ساتھ میں یہ وضاحت بھی کر دی کہ ایسا اقدام مقامی فلسطینی باشندوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچائے،  اتفاق سے یہ وہی دن تھا جب لیگ آف نیشنز نے فلسطین مینڈیٹ منظور کیا۔ اس کے برعکس آج کے زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل نے یروشلم سمیت تمام فلسطینی اور آس پاس کے عرب علاقوں پر ناجائز تسلط جما کر اپنے آپ کو غاصب طاقت ثابت کرتے ہوئے غیر یہودی فلسطینی باشندوں کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

برطانیہ World War II کی تباہ کاریوں کے بعد فلسطین کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے مزید قابل نہ رہا  تو اقوامِ متحدہ نے یو این پارٹیشن پلان کے مطابق 1948ء میں سرزمین فلسطین کو دو آزاد ریاستوں اسرائیل، فلسطین اور یروشلم کو بطور خصوصی عالمی شہر تقسیم کر دیا، اس وقت یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں تھا کیونکہ یو این جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181(ii) یروشلم شہر کو بطور عالمی شہر تسلیم کرنے اور اقوامِ متحدہ کے تحت انتظامی امور چلانے کا تقاضا کرتی ہے۔ یو این پلان کے مطابق آزاد ریاستوں کے مابین اقتصادی تعاون اور مذہبی و اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت یقینی بنانے کی بھی بات کی گئی لیکن اس پلان کا نفاذ ہوتے ہی اسرائیل کی ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ جنگ چھڑ گئی اور اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جسے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری نے تاحال تسلیم نہیں کیا، جنگ کے نتیجے میں فلسطین کیلئے مختص 60 فیصد سے زائد رقبے پر بھی اسرائیل نے غیر قانونی تسلط جما لیا اور 7 لاکھ سے زائد مقامی فلسطینی باشندوں کو اپنے آبائی گھروں سے نکال دیا جو آج بھی پناہ کے متلاشی ہیں۔

دسمبر 1949ء میں اسرائیلی کابینہ نے اپنے تل ابیب اجلاس میں یو این پارٹیشن پلان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا، بعدازاں 1950ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے بھی اپنے پہلے اجلاس میں اس غیر قانونی اقدام کی تائید کر دی  لیکن عالمی برادری نے اسرائیلی موقف کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنے سفارتخانے تل ابیب ہی میں قائم رکھے،  دوسری طرف پاکستان سمیت مسلمان ممالک کی اکثریت اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتی۔ اسرائیل 1967ء کی دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد مکمل طور پر یروشلم سمیت دیگر عرب علاقوں پر قابض ہو گیا  تو اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 میں اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا،  یہ قرارداد علاقائی امن و استحکام کیلئے سب سے زیادہ موثر سمجھی جاتی ہے جس نے مستقبل میں اسرائیل کے مصر، اردن اور فلسطین کے ساتھ امن معاہدوں کی راہ ہموار کی۔  قیام امن کیلئے کی جانے والی عالمی کاوشوں کو دھچکا اس وقت لگا جب اسرائیلی پارلیمنٹ نے 1980ء میں مکمل یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا،  جواب میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 478 منظور کر کے اسرائیلی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے ممبران ممالک کو پابند کیا کہ وہ اپنے سفارتخانے یروشلم منتقل نہ کریں، اس موقع پر قرارداد کے حق میں 14 ووٹ جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا، امریکہ نے ووٹ ڈالنے سے گریز کیا۔

عالمی مبصرین کی نظر میں اسرائیل کی طاقت کا راز سپر پاور امریکہ کی حمایت کو سمجھا جاتا ہے، امریکہ ،اقوام متحدہ میں پیش ایسی تمام قراردادوں کو ویٹو کرتا آ رہا ہے جن میں اسرائیلی مظالم کی مذمت، اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنا یا عالمی قوانین کا احترام کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی لابی 1995ء میں امریکی کانگریس کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئی کہ یروشلم اسرائیل کا قانونی دارالحکومت ہے  اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم 31 مئی 1999ء سے قبل منتقل کر دیا جائے۔ یروشلم ایمبیسی ایکٹ نامی یہ قانون منظور تو ہو گیا لیکن عالمی قوانین سے متصادم ہونے کی بنا پر فوری طور پر نافذ نہ ہو سکا  اور امریکی صدور بشمول بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوباما ہر 6 مہینے بعد اس کی مدتِ نفاذ میں اضافہ کرتے رہے۔ یروشلم Embassies ایکٹ کے سیکشن 3(a-1) کے مطابق امریکی پالیسی کے تحت یروشلم کو ایک ایسا متحد شہر قرار دیا گیا ہے جہاں ہر ایک کے مذہبی اور نسلی حقوق کی حفاظت یقینی ہو سکے لیکن یروشلم میں قائم Aqsa Masque میں مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی ادائیگی پر پابندی  اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے بعد یروشلم میں فلسطینی مظاہرین پر جس ظالمانہ طریقوں سے تشدد کیا گیا بلکہ فضائی حملہ تک کیا گیا، یہ بہیمانہ کارروائیاں یروشلم ایمبیسی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہیں۔ میری نظر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یروشلم کے تقدس کو مقدم رکھتے ہوئے ویٹی کن سٹی کی طرز پر آزاد عالمی حیثیت کو قائم کرنا ضروری ہے یا پھر دو ریاستی حل کے تحت دونوں فریق باہمی رضامندی سے یروشلم کو مشترکہ دارالحکومت قبول کرنے پر آمادہ ہوں لیکن طاقت کے زور پر اسرائیل کا یکطرفہ طور پر مقبوضہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دینا اور امریکہ کا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ پر بطور سپر پاور ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی امن و استحکام کی خاطر غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کیلئے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ سپر پاور کے ایک غلط فیصلے کا خمیازہ ساری انسانیت کو بھگتنا پڑ جاتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply