افغان پارلیمان نے امریکہ سےفوجی انخلا کا مطالبہ کر دیا

افغان پارلیمان نے امریکہ سےفوجی  انخلا کا مطالبہ کر دیا

افغان پارلیمان نے امریکہ سےفوجی انخلا کا مطالبہ کر دیا

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان پارلیمان نے امریکہ سے افغانستان چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہے اور افغانستان میں بدامنی کا سبب امریکی فوج کی موجودگی کو قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز افغان پارلیمان کا اجلاس منعقد ہوا تو افغانستان پر روسی حملے کے 38 سال مکمل ہونے کے علاوہ امریکی قبضے پر بھی بحث کی گئی۔ اس دوران مختلف اراکین پارلیمان نے روس کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت اور ان کا ساتھ دینے والوں کو خراچ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ روس کی جانب سے حملہ تاریخ کا بدترین دور تھا۔ جن ممالک اور لوگوں نے افغان عوام کی مدد کی، وہ انہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔ ارکان پارلیمان نے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو روس سے سبق سیکھتے ہوئے افغانستان سے فوری نکل جانا چاہیے۔ جس طرح روس کو شکست ہوئی، اسی طرح امریکہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اراکین پارلیمان نے کہا کہ افغان کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے اور اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیا جائے۔ افغان پارلیمان نے گزشتہ 7 برسوں میں پہلی بار متفقہ طور پر اس امر کا اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ بدامنی کی واحد وجہ غیر ملکی افواج کی موجودگی ہے۔ اگر بیرونی افواج نکل جائیں تو طالبان کے پاس لڑائی کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور افغان عوام خود طالبان کو امن پر مجبور کریں گے۔ اگر امریکی نکل جائیں تو طالبان بھی جو طویل عرصہ سے لڑائی لڑ رہے ہیں، بندوقیں زمین پر رکھ دیں گے۔ اراکین پارلیمان نے امریکہ کا انخلا مذاکرات کے لیے واحد حل قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان پارلیمان نے امریکی انخلا کا مطالبہ ایسے وقت میں کیا ہے جب چین، افغانستان اور پاکستان امن مذاکرات کی بحالی پر متفق ہو گئے ہیں۔ جبکہ افغان دارالحکومت کا بل مصالحتی کمیشن کے 800 علمائے کرام نے طالبان سے مذاکرات کی درخواست کی ہے۔  اب اس کے ایک روز بعد ہی افغان پارلیمان نے امریکی انخلا کا مطالبہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب افغان پارلیمان کی جانب سے مطالبے پر امریکہ یا افغان حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ادھر افغان طالبان نے افغانستان پر روسی حملے کے 38 سال مکمل ہونے پر جاری ایک اعلامیہ میں افغان عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف متحد ہو کر طالبان کا ساتھ دیں۔ امریکی کی مدد کرنے والے افغان سیاستدان، فوجی حکام اور حکومتی اہلکار پرانے کمیونسٹوں کی تاریخ سے سبق سیکھیں۔  طالبان نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ روس نے افغان کمیونسٹ ساتھیوں کی مدد سے افغانستان کے مسلمان عوام پر اچانک حملہ کیا اور ان کی زندگی کو تباہی سے دوچار کر دیا۔ امریکہ نے ابھی تک روسی شکست سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور افغانستان میں اپنے قبضے کوبخشنے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن افغان عوام روس کے خلاف اپنے جہادی تجربے سے امریکہ کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور امریکہ کو بھی سوویت یونین کی طرح شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جس طرح روس نے شکست کو قریب دیکھ کر پروپیگنڈا مہم شروع کر دی تھی اور عام لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اب امریکہ بھی اپنی شکست سامنے دیکھ کر روسی کی سی روش اختیار کر رہا ہے۔ لیکن بہت جلد امریکہ کو بھی رسوائی کو سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق علمائے کرام کی درخواست پر طالبان کی مذاکرات کے لیے مشروط رضامندی اور اب افغان پارلیمان کی جناب سے امریکی انخلا کے مطالبے کے بعد افغان حکومت پر مذاکرات کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب روس، ایران اور چین بھی امریکہ کی موجودہ پالیسی کو ہمسایہ ممالک اور خطے کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ روس اور چین کی جانب سے افغان صورتحال پر مسلسل تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب روس، افغانستان سے متوصل سرحد پر نہ صرف نفری بڑھا رہا ہے، بلکہ تجارتی راستوں کو بھی آہستہ آہستہ بند  کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ اور بھارت فضائی راستے سے ایئر کوریڈو تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ روس کے افغانستان پر حملے کے 38 سال مکمل ہونے کے بعد ممبئی کے لیے بھی Kabul  سے فضائی کوریڈور کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول بھارت، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے اور افغانستان کی تجارت کا رخ موڑنے کے لئے عارضی طور پر ایسے منصوبوں کا اعلان کر رہا ہے اور امریکہ کی پالیسی میں مدد دے رہا ہے۔ تاہم بھارت کی ان چالوں کے جواب میں روس وسط ایشیائی ممالک اور پاکستان کے ساتھ صدیون سے افغان تجارتی راستے بند ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی اور بھارتی پالیسیوں کی وجہ سے افغان تجارت تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ افغان تاجروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغان حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ صدیوں سے جاری تجارتی راہیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

No comments.

Leave a Reply