کوریا کی تقسیم کا ذمے دار بھی امریکا

کوریا کی تقسیم کا ذمے دار بھی امریکا

کوریا کی تقسیم کا ذمے دار بھی امریکا

نیوز ٹائم

جب پچھلے سال امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ Hillary Clinton جیسی مضبوط امیدوار کو شکست دی، تو دنیا میں بستے اکثر لوگوں کو تعجب ہوا۔ وجہ یہ کہ مسٹر ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران جنگجو، جھگڑالو اور Tees Maar Khan نما لیڈر ثابت ہوئے تھے۔ شاید امریکی عوام کو یقین تھا کہ ایسا ہی لیڈر ان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر بنے ایک برس بیت چکا، امریکی عوام کے حالات جوں کے توں ہیں۔ البتہ سال رواں میں جنگجو ٹرمپ نے اپنی متنازع پالیسیوں سے دنیا میں نفرت، اور دشمنی میں اضافہ ضرور کر دیا۔  یروشلم  کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے انہوں نے نیا بحران کھڑا کر ڈالا۔ پھر روس و چین کو علی الاعلان امریکا کا حریف قرار دیا۔  وہ ایران، شام اور شمالی کوریا پر بھی گرجتے برستے رہتے ہیں۔

2017 میں ڈونالڈ ٹرمپ اور شمالی کورین حکومت کے درمیان تو زبردست لفظی جنگ چھڑی رہی۔  شمالی کورین صدر، Kim Jong Un اور ٹرمپ نے ایک دوسرے کو پاگل، اور برے الفاظ سے نوازا۔ شمالی کورین وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر پر تبصرہ کیا: کتا بھونک رہا ہے، اسے بھونکنے دو۔ امریکا اور شمالی کوریا کی دشمنی کی عیاں وجوہ سے تو سبھی واقف ہیں۔ نمایاں وجہ یہ کہ امریکا، شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا اپنا ایٹمی منصوبہ ختم کر دے مگر یہ ایشیائی ملک  ایسا کرنے کو تیار نہیں۔  شمالی کوریا اپنے ایٹمی منصوبے کو اپنا بہترین دفاع قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے، جب امریکا نت نئے ایٹمی ہتھیار بنا چکا، تو اسے بھی اپنے دفاع میں ہر قسم کا اسلحہ بنانے کا حق حاصل ہے۔ قابل ذکر بات یہ  کہ شمالی کوریا اور امریکا کا ٹکرائو دور جدید کا عجوبہ نہیں بلکہ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔  یہ تاریخ عیاں کرتی ہے کہ امریکی حکمران جب طاقتور بن بیٹھے، تو انہوں نے معاشی و تہذیبی طور پر شمالی کوریا پر قبضہ کرنا چاہا تھا۔  لیکن کورین حکمرانوں اور رعایا نے امریکی استعمار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔  وہ تقریبا پونے 200 سال سے امریکی سپرمیسی سے نبردآزما ہیں اور طاقت و غرور کے نشے میں مست امریکی حکمرانوں کو جوق در جوق جواب دیتے ہیں۔

19ویں صدی میں جب امریکا معاشی طور پر طاقتور ہوا، تو امریکی حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ اب بیرون ممالک پر اپنا اثرورسوخ بڑھایا جائے۔ انہوں نے برطانیہ کی بدنام زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مثال کو بھی سامنے رکھا۔  یہ کمپنی تجارت کی آڑ میں مختلف ممالک میں تجارتی اڈے بناتی اور پھر رفتہ رفتہ وہاں فوج بھرتی کر کے علاقوں پر قبضہ کر لیتی تھی۔ چنانچہ امریکی حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ تجارت کے بہانے کوریا، جاپان اور چین میں اثرورسوخ بڑھایا جائے۔  اس لیے 1850ء کے بعد امریکی بحری جہاز کوریائی، جاپانی اور چینی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے لگے۔ شروع میں تینوں ایشیائی ممالک نے امریکیوں کو خوش آمدید کہا۔ مگر رفتہ رفتہ انہیں احساس ہوا کہ امریکی جہازوں پر مشنری (پادری) بھی سوار ہوتے ہیں۔ یہ مشنری مقامی آبادی میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے اور مختلف اشیا دے کر انہیں رجھاتے تھے۔ اس امر نے کوریائی حکومت کو چوکنا کر دیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ تجارت کے بہانے امریکی، کوریا میں اپنا مذہب اور تہذیب و ثقافت رائج کرنا چاہتے ہیں۔  اسی لیے کوریا نے مغربی طاقتوں کے تجارتی بحری جہازوں کی آمد پر پابندی لگا دی۔ مگر طاقت کے نشے میں مست امریکیوں کو یہ پابندی منظور نہ تھی۔

جولائی 1866ء میں ایک امریکی تجارتی بحری جہاز، Genral Sherman شمالی کوریا کے موجودہ دارالحکومت، Pyongyang کے نزدیک پہنچ گیا۔  اس پر ایک American missionary بھی ملاح کے روپ میں سوار تھا۔ اس جہاز پر توپیں بھی نصب تھیں۔ جب Genral Sherman نے Tedung River میں سفر کرتے ہوئے Pyongyang کی جانب بڑھنا چاہا تو کوریائی انتظامیہ نے امریکی مالکوں کو متنبہ کیا کہ وہ واپس پلٹ جائیں۔ مگر مفرور امریکیوں نے انتظامیہ کی ایک نہ سنی۔ اس پر کوریائی فوج نے امریکی جہاز کو آگ لگا کر ڈبو دیا۔ اس پر سوار سبھی امریکی مارے گئے۔  مقتول امریکیوں کا بدلہ لینے اور کوریا جزیرہ نما میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے 5 سال بعد جون 1871ء  میں امریکی فوج نے کوریا پر دھاوا بول دیا۔  امریکیوں نے 200 سے زائد کوریائی باشندے مار ڈالے اور کئی بستیاں اجاڑ دیں۔  یوں آزادی اور حقوق انسانی کا چیمپئن سمجھا جانے والا امریکا اب استعماری اور ظالم طاقت میں تبدیل ہونے لگا۔ آخر 1882ء  میں کوریائی حکومت نے تجارتی امریکی جہازوں کو آنے کی اجازت دے دی،  لیکن مشنری سرگرمیوں پر پابندی لگی رہی۔ 1905 میں کوریا اور امریکا کے مابین تعلقات پھر خراب ہو گئے۔  وجہ یہ کہ امریکا نے خطے میں جاپان کو بالادست طاقت تسلیم کر لیا۔ امریکی شہ پر جاپان نے 5 برس بعد کوریا پر قبضہ کر لیا:

کوریا کی تقسیم کا ذمے دار بھی امریکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکیوں نے جنوبی کوریا پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ سویت یونین شمالی کوریا پر قابض ہو گیا۔ تب سویت فوجیں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ چنانچہ امریکیوں کو لگا کہ وہ جنوبی کوریا پر قبضہ کر لیں گے۔  اپنے حصے کو محفوظ کرنے کی خاطر امریکا نے پھر سویت یونین کے ساتھ سازباز کر کے کوریا جزیرہ نما کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ تقسیم عارضی تھی مگر بعد ازاں امریکا اور سویت یونین کے مابین سرد جنگ شروع ہو گئی۔ دونوں سپر طاقتوں کی اس جنگ نے کوریائی عوام کو بہت نقصان پہنچایا۔ کئی خاندانوں کے ارکان ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کسی کا باپ بچھڑ گیا تو کسی کی بیٹی، دونوں عالمی طاقتوں کی ضد اور غرور کے باعث بدقسمت کوریا آج تک دو حصوں میں تقسیم چلا آ رہا ہے۔ امریکا نے جنوبی کوریا کے حکمران طبقے کو بھاری مالی و عسکری امداد دے کر اپنے رنگ میں رنگ لیا  مگر وہ شمالی کوریا کی حکومت کو مطیع نہیں کر سکا۔  شمالی کوریا آج بھی امریکا کو استعماری اور ظالم طاقت قرار دیتا ہے۔  اس سپر پاور کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہی شمالی کورین حکمرانوں نے ایٹمی منصوبے کا بھی آغاز کر دیا۔

2017 میں کیا ہوا؟

2017ء عیسوی میں شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا ایک تجربہ اور ایٹمی میزائلوں کے چار تجربے کیے۔ شمالی کوریا اب تک ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے 6 تجربات کر چکا۔ فی الوقت مملکت کے سائنس دانوں اور ماہرین کی توجہ ایسے میزائل بنانے پر مرکوز ہے جو ایٹمی ہتھیار دور دراز علاقوں خصوصاً امریکا تک لے جا سکیں۔ اسی لیے امریکا اور شمالی کوریا کے مابین تنائو میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا۔ اب امریکی حکمران طبقے کو احساس ہو رہا ہے کہ اس کی شروع کردہ جنگیں گھر تک پہنچ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب بھی شمالی کوریا نے ایٹمی یا میزائل تجربہ کیا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس پر برس پڑے۔ کبھی یہ بیان داغا کہ امریکی فوج شمالی کوریا کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔  کبھی یہ دعوی کیا گیا کہ امریکا کو نقصان پہنچانے والا کوئی مائی کا لال اب تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ فلموں جیسے نہایت جذباتی اور مشتعل کر دینے والے مکالمے بولنے میں صدر ٹرمپ خاص مہارت رکھتے ہیں۔

اشتعال انگریز بیان بازی کے باوجود ماہرین سیاسیات کی اکثریت کا خیال ہے کہ 2018ء میں امریکا اور شمالی کوریا کے مابین جنگ چھڑنے کا امکان بہت کم ہے۔  وجہ یہ ہے کہ دونوں فریق اور ان کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی کم از کم خطے میں ایٹمی جنگ نہیں دیکھنا چاہتا۔ شمالی کورین حکومت معاشی مسائل سے نبردآزما ہے۔ صدر Kim Jong Un کو علم ہے کہ اگر وہ مملکت کو معاشی و معاشرتی طور پر مضبوط نہ کر پائے، تو ان کا اقتدار ختم ہو سکتا ہے۔ اسی لیے شمالی کورین صدر امریکا پر زبانی کلامی حملے تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں، مگر انہوں نے کسی ٹھوس اقدام سے گریز کیا ہے۔ ایک بھی ٹھوس قدم جنگ کا آغاز کر سکتا ہے اور جنگ ہمیشہ تباہی و بربادی لاتی ہے۔

امریکی حکمرانوں کو بھی احساس ہے کہ اگر شمالی کوریا کی معیشت پر کاری ضرب لگائی جائے تو وہاں کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ممکن ہے۔ اسی لیے شدید امریکی دبائو پہ 22 دسمبر 2017ء  کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے شمالی کوریا پر مذید نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ سیکورٹی کونسل پچھلے 11,12 سال کے دوران 10 بار شمالی کوریا پر مختلف پابندیاں لگا چکی تاہم امریکا سمجھتا ہے کہ وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ اسی واسطے امریکی حکمران طبقے نے اس بار پچھلی تمام پابندیوں سے زیادہ سخت اور کڑی پابندیاں شمالی کوریا پر لگوائی ہیں۔ ان پابندیوں کے لاگو ہونے پر شمالی کوریا ماضی کی نسبت صرف 10 فیصد تیل بیرون ممالک سے منگوا سکے گا۔ فی الوقت وہ 50 لاکھ بیرل تیل ملکی ضروریات کے واسطے درآمد کرتا ہے۔ پابندیاں لگنے پر یہ مقدار صرف 5 لاکھ بیرل تیل رہ جائے گی۔

دوئم بیرون ممالک جتنے بھی شمالی کورین باشندے ملازمت کر رہے ہیں، ان کو اگلے 2 برس کے دوران واپس وطن بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح شمالی کوریا قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہو گا۔ سوئم نئی پابندیوں کے بعد اب شمالی کوریا ملک میں تیار ہونے والی بعض اشیا مثلا مشینری، الیکٹریکل مصنوعات وغیرہ بیرون ملک فروخت نہیں کر سکے گا۔  درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ امریکا شمالی کوریا کی معیشت مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے، ملک میں تیل کی شدید قلت نے جنم لیا تو کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ پہلے سے خراب معیشت مزید تباہ حال ہو گی۔ اس صورت حال میں شمالی کوریا کے عوام و خواص اپنی حکومت پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ ایٹمی منصوبہ ختم یا کم از کم معطل کر دیا جائے۔

حیرت انگیز بات یہ کہ روس اور چین بھی نئی پابندیوں کے حامی نکلے۔ یہ دونوں روایتی طور پر شمالی کوریا کے حمایتی ہیں۔ شاید نوجوان شمالی کورین صدر جذبات میں آ کر دوست حکومتوں کے  بیانات سننے کو تیار نہیں، اسی لیے چین اور روس بھی اس سے خفا ہو چکے۔ بہرحال شمالی کوریا کے دونوں سرپرستوں  کی بھرپور سعی ہے کہ شمالی کوریائی حکومت بذریعہ سفارت کاری امریکہ سے تعلقات بہتر بنا لے۔  مگر شمالی کوریا ابھی سفارت کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔  ماہرین کا کہنا ہے، شمالی کوریا پہلے ایسی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایک ہی وار میں لاس اینجلس کا صفایا کر دے۔  یہ صلاحیت پانے کے بعد ہی شمالی کورین حکومت معاملات طے کرنے  میز پر بیٹھے گی۔

حالات سے واضح ہے کہ 2018ء میں بھی شمالی کوریا اور امریکا کے ایک دوسرے پر حملے کرتے ہوئے الفاظ کا گولہ بارود جی بھر کر استعمال کریں گے۔  لیکن اس مکالمے کا حقیقی جنگ میں تبدیل ہو جانے کا امکان کم ہے۔ اگرچہ بے وقف مزاج اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے امریکی صدر اچانک کوئی فیصلہ کر کے دنیا میں نئی آفت، نیا بحران کھڑا کر سکتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply