امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ: دنیا کے مستقبل کو خطرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کے ایک صحافی H.L. Menckenنے 26 جولائی 1920ء کو The Baltimore Evening Sun میں لکھا تھا کہ اب جبکہ جمہوریت نہایت اطمینان بخش اور عوام کے قریب تر ہو گئی ہے، کسی ایک عظیم دن آخرکار سادہ لوح عوام کی خواہش یوں پوری ہو جائے گی کہ وائٹ ہائوس پر کوئی کم عقل قابض ہو جائے گا، لگتا ہے کہ ایسا ہو چکا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری 30 جنوری 2017ء کے موقع پر سابق صدور Bill Clinton ، George W. Bush اور Hillary Clinton ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کے بعد Hillary Clinton نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا، اس تقریب میں پہلی مرتبہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا، پہلے کسی امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں ایسا نہیں ہوا۔ یوں 97 سال پہلے ایک صحافی و دانشور کے ہر لفظ کی تصدیق ہوتی ہے، RT ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سیاسی تجزیہ نگار خاتون صحافی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات بچکانہ اور غیر سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ری پبلیکنز کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کا نوٹس لینا چاہئے کیونکہ وہ امریکہ کے کمانڈر انچیف ہیں اور یہ بھی کہ ان کے اقدامات کی ذمہ داری پورے ملک امریکہ پر عائد ہوتی ہے، ان کا مشورہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے رویے میں وقار لانا ہو گا،  اب تو امریکہ کا وقار کم ہوتا جا رہا ہے، امریکہ کا مستقبل ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو غیر سنجیدہ ہے اور دنیا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

امریکی صدر اور ان کی ملٹری کابینہ نے پاکستان کے خلاف ایک مہم چلائی ہوئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ Rex Tallerson نے 20 اکتوبر 2017ء کو بگرام فضائی اڈہ کا خفیہ دورہ کیا، جہاں 20 ہزار کے قریب امریکی فوجی اور سویلین رہ رہے ہیں یا کام کر رہے ہیں اور وہ اتنے خوفزدہ تھے جیسے کہ کوئی راکٹ یا مارٹر حملہ ہونے والا ہو۔ 16 سالہ جنگ کے بعد افغانستان میں شکست کھانے کے بعد امریکہ زمین دوز اڈوں میں بند ہو کر رہ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے 12 دسمبر 2017ء  کو یہ بیان دیا کہ جو حملہ Kabul میں ہو سکتا ہے وہ اسلام آباد میں بھی ہو سکتا ہے اگر دہشت گردی پر قابو نہ پایا گیا۔ مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ افغانستان پر امریکہ قابض ہے پاکستان نہیں اور نہ ہی اب پاکستان، امریکہ جیسے ناقابل اعتبار ملک کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ امریکی صدر نے یکم جنوری 2018ء  کو جو ٹویٹ کی اس میں انہوں نے پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا، اس کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ پاکستان، امریکہ کو بے وقوف بناتا رہا ہے،  امریکہ نے انتہائی بے وقوفی کی کہ اس نے پاکستان کو 33 ملین ڈالرز کی امداد 15 سالوں میں دی، اب وہ مزید امداد نہیں دیں گے۔ ان کا یہ بیان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل Asif Ghafour کے اِس بیان کے بعد آیا کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے بہت کچھ کر دیا اور وہ اب مزید کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی صدر نے یہ ٹویٹ نئے سال کے آغاز میں علی الصبح 4 بج کر 12 منٹ پر بطور وارننگ دیا۔ اس کے بعد امریکی نائب صدر Mike Penceنے بگرام کے اڈے پر پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور امریکہ نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے۔ اس پر پاکستان کا شدید ردعمل آیا اور اس نے واضح کہہ دیا کہ پاکستان میں ہم نے دہشت گردی کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے بہت کچھ کر دیا ہے اور ہم مزید امریکہ کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں، امریکہ سے تعلقات کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ وہ امریکہ کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے کو تیار نہیں۔ سابق امریکی سیکریٹری Chuck Hagel نے حقیقت بیان کر کے لوگوں کو چونکا دیا ہے، انہوں نے ایک تقریب میں کہا کہ بھارت نے کئی برس سے پاکستان کے خلاف مسائل پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، سرحد کے دونوں طرف اور کئی طریقوں سے بھارت، پاکستان کو تنگ کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف طالبان جنگجوئوں کو بھارتی مدد کھلا راز ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کے امور کے مشیر Ajit Doval نے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ دہشت گرد اگر کسی کے کہنے پر دہشت گردی کرتے ہیں تو ہم ان کو ڈیڑھ گنا زیادہ دے کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرا دیتے ہیں۔ تحریک طالبان کے نائب امیر نے گرفتاری کے بعد کہا کہ بھارت، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف طالبان کی مدد کرتا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے، افغانستان اور بھارت کی ایجنسیاں مل کر کام کر رہی ہیں اور یہ دونوں ایجنسیاں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کراتی ہیں۔ Chuck Hagel کہتے ہیں کہ Kulbhushan کا کیس ایک ثبوت ہے کہ بھارت کس طرح دہشت گردی کراتا ہے، Kulbhushan کے مطابق پاکستان مخالف افغان طالبان نے مہران اڈے پر حملہ کیا جس سے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچا، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی تحریک طالبان اور RAW کے درمیان پاکستان کے خلاف گہرے روابط ہیں۔ تاہم ساری دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ اصل میں دہشت گردی کون کرا رہا ہے اور ان دہشت گردوں کا سرپرست کون ہے۔

سابق افغان صدر Hamid Karzai کا بیان موجود ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں اسلامک اسٹیٹ (ISIL) کے دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے افغانستان میں جمع کر لیا ہے، امریکی صدر کا ٹویٹ دراصل بھارت کے اس مطالبے کے بعد کیا گیا کہ وہ چین کے خلاف امریکہ کا ساتھ اس وقت دے سکتا ہے جب امریکہ، پاکستان کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان کے سلامتی امور کے مشیر جنرل (ر) Nasir Janjuwa اور بھارتی سلامتی امور کے مشیر Ajit Doval کے درمیان 26 دسمبر 2017ء کو بینکاک میں ملاقات ہوئی۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بات ضرور زیربحث آئی ہو گی کہ خطے کو جنگ کا میدان نہ بنایا جائے اور امریکی شہ پر اور خود بھارت اپنی حدود سے اتنا آگے نہ بڑھے کہ خونریز جنگ چھڑ جائے۔ جس سے دونوں ملکوں کے عوام کو نقصان ہو گا۔ تاہم ہمارے خیال میں امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ، امریکی ملٹری صنعت کے کرتا دھرتا، نئے قدامت پسند اور عالمی امرا نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کم عقل ذہن کے مالک کو اس لئے امریکہ کا صدر بنایا ہے  کہ دنیا میں جنگ کا خوف پیدا کریں اور اپنی جنگی صنعت کو فروغ دیں، اس لئے وہ ساری دنیا میں ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں تاکہ دنیا کا نظام بگڑ جائے اور پاکستان اس کے دبائو میں رہے وہ حقانی گروپ کو قابو کرے۔ یہ دبائو ایسا ہی ہے جو 9/11 کے وقت تھا مگر اب صورتِ حال مختلف ہے۔ پاکستان کسی دبائو میں آنے کو تیار نہیں، 2010ء سے پاکستان، امریکہ سے علیحدہ ہونا شروع ہوا تھا۔ 2011ء میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک دوسرے کو دور کر دینے والے کئی واقعات ہوئے تھے جیسے Raymond Davis ، Abbottabad کے واقعات۔ اب پاکستان زیادہ محفوظ اور امریکی دبائو کو برداشت کرنے کا اہل ہے، امریکہ، پاکستان کو دبائو میں رکھنے کا خیال ذہن سے نکال دے اور دنیا کے مستقبل کیلئے خطرہ نہ بنے کیونکہ عالمی جنگ ہو سکتی ہے، خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply