ایران میں نئی احتجاجی تحریک کا مستقبل کیا ہو گا؟

ایران میں نئی احتجاجی تحریک کا مستقبل کیا ہوگا؟

ایران میں نئی احتجاجی تحریک کا مستقبل کیا ہوگا؟

نیوز ٹائم

ایران کی انقلابی قیادت اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے بحران سے دوچار ہے، 2017 کے آخری دنوں میں ایران ایک بار پھر زوردار مظاہروں کے گھیرے میں آ گیا،  اگرچہ مظاہرے 2018ء کے ابتدائی دنوں میں تیز ہو گئے تاہم ان کے اثرات واضح طو پر نظر آئیں گے۔ ایک اثر سابق ایرانی صدر Mahmood Ahmadinejad کی گرفتاری ہے جنھیں موجودہ ایرانی صدر ڈاکٹر Hassan Rouhani کے حکم پر زیر حراست لیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ حالیہ مظاہروں میں انھوں نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ مظاہروں کا یہ سلسلہ ایران کے دوسرے بڑے شہر Mashhad میں 28 دسمبر کو شروع ہوا، سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں مجموعی طور پر دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ایک ہزار افراد گرفتار ہوئے، بعض دیگر رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زائد ہے جبکہ گرفتار ہونے والے 4000 سے زائد ہیں۔ مظاہرین میں زیادہ تر ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے۔ ان کا کوئی لیڈر نہیں تھا، کوئی منصوبہ بندی محسوس ہوئی نہ ہی انھیں سوشل میڈیا پر مہم چلا کر انھیں منظم کیا گیا۔ تاہم وہ حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے۔

4 جنوری کو پاسداران انقلاب کے سربراہ Maj Gen Mohammad Ali Jafri نے اعلان کیا کہ ملک میں بغاوت کو شکست دے دی گئی ہے۔  انھوں نے یہ اعلان اس وقت کیا جب حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف حکومت کے حق میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی چینل نے حکومت کے حق میں منعقدہ مظاہروں کو براہ راست دکھایا، جن شہروں میں حکومت کے حق میں مظاہرے کیے گئے ان میں Karmanshah ، Elam اور Gorgan شامل ہیں۔  حکومت کے حق میں نکالے جانے والے جلوسوں میں افراد نے ایران کے قومی پرچم اور سپریم لیڈر Khamenei کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں، مظاہرین نے امریکہ کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

Maj Gen Mohammad Ali Jafri نے مزیدکہا: آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ 96 کی بغاوت ختم کر دی گئی ہے۔ ان کا اشارہ فارسی کیلنڈر کی طرف تھا جس کے مطابق رواں سال 1396ء ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی کی تیاری اور لوگوں کی نگہبانی کے باعث دشمنوں کو شکست ہوئی اور تین صوبوں میں پاسداران انقلاب کے دستوں نے محدود پیمانے پر کارروائیاں کیں۔ ان کے مطابق مظاہرے ہونے والی ہر جگہ پر 1500 افراد تھے جبکہ ملک بھر میں مظاہرے کرنے والوں کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔

یہ احتجاج 2009 ء میں اصلاحات کے حق میں ہونے والی ریلیوں کے بعد سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے۔ اس کا سبب ایران میں عوام کا گرتا ہوا معیارِ زندگی اور کرپشن بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم ایران کے رہبرِ Ayatollah Ali Khamenei نے کہا ہے کہ ملک کے دشمن اس احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایران کے دشمنوں نے رقم، ہتھیار، سیاست اور خفیہ اداروں سمیت مختلف ہتھکنڈوں کو ایران میں حالات خراب کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ البتہ Major General Jafri نے اس بغاوت کا الزام انقلاب مخالف ایجنٹوں، بادشاہت پسند قوتوں پر عائد کیا۔ ان کے الفاظ میں دشمنوں نے ایران میں ثقافتی، معاشی اور سیکیورٹی خدشات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ نے مظاہروں کا الزام سابق حکام پر بھی عائد کیا۔

تجزیہ کاروں پہلے ہی دعوی کر رہے تھے کہ Major General Jafri کا اشارہ سابق صدر Mahmoud Ahmadinejad کی جانب ہے۔ محض تین دن بعد ان کا دعوی درست ثابت ہوا۔ان مظاہروں کا سبب کیا تھا؟  اگر سابق صدر مظاہروں کے پیچھے تھے تو انھیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیروز گاری میں اضافے اور اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے باوجود عام ایرانیوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہ آئی، ایرانی معیشت کے وہ شعبے بھی شدید مشکلات سے دوچار ہو گئے جن کا انحصار تیل پر نہیں ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعوی ہے کہ بیروزگاری کی شرح 12 اعشاریہ 5 فیصد ہے لیکن لاکھوں نوجوان ایرانیوں میں بیروزگاری اس سے کہیں زیادہ ہے، ملک میں افراط زر کی شرح بھی 10 فیصد ہو چکی ہے۔

استنبول میں قائم تحقیقی ادارے الشرق فورم سے منسلک طامر بداوی کے بقول ایران میں جو ہو رہا ہے  وہ امیدوں کا بحران ہے اور لوگ شدید معاشی محرومی کا شکار ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ مظاہروں کی صورت میں سڑکوں پر آنے والے وہی لوگ تھے جو اس سے قبل ایران، امریکا جوہری معاہدہ پر جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جوہری معاہدے کے بعد ایرانی عوام کے لئے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلیں گے تاہم 2 برس گزرنے کے بعد ان کے خواب پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بے چینی کی حالیہ لہر کے بعد ممکن ہے کہ صدر حسن روحانی اپنی معاشی پالیسیوں میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائیں، وہ نئے ذرائع آمدن پیدا کرنے پر مزید رقم خرچ کریں، بڑھتے ہوئے افراط زر پر قابو پانے کے لئے ایرانی ریال کی شرح مبادلہ تبدیل کریں اور  ملک میں پھیلتی ہوئی بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے مزید اقدامات کریں۔ حالیہ مظاہروں کی ایک بڑی وجہ بھی بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممکنات کا مطلب ہے کہ صدر روحانی کو اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی لانا ہو گی۔ وہ اب تک سرکاری اخراجات میں عدم توازن پر قابو پانے کے لئے روایتی بجٹ پالیسی اختیار کئے ہوئے تھے، اس کا ایک مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایران کو ایک پرکشش ملک بنانا تھا۔ نتیجتا اس دوران میں وہ مالی بدعنوانیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے تو انھیں ملک کے طاقتور معاشی حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا رہا  لیکن شاید اب صدر کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔  ایرانی معاشیات  کے ماہر کا کہنا ہے کہ ایران میں بدعنوانی کی جڑیں ختم کرنا صدر روحانی کے لیے کسی صبر آزما مہم سے کم نہیں ہو گا لیکن اب صدر کے پاس دوسرا راستہ نہیں بچا۔ لوگوں میں مایوسی بہت بڑھتی جا رہی ہے، اس قسم کی صورت حال میں آئے روز مزاحمت اور ہنگامے ہوتے رہیں گے۔

جب ہم ایران کے اندر بار بار پیدا ہونے والی بے چینی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے فورا بعد صدر حسن روحانی نے سابق صدر Mahmoud Nejad کی پالیسی ترک کر دی تھی جس کے تحت متوسط اور کم آمدن والے ایرانی خاندانوں کو حکومت کی جانب سے نقد رقوم فراہم کی جاتی تھیں، انھوں نے اگلے سال مارچ سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کے لیے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں حکومتی اخراجات کو کم رکھنے کی کوشش کی۔ اب چونکہ اقتصادی پابندیاں ختم ہو چکی ہیں، ایسے میں اس قسم کی کفایت شعاری کو ایرانی عوام برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف بڑی تعداد میں غیر ملکی کپمنیاں بھی ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہچکچا رہی ہیں، جس کی ایک وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے خلاف سخت موقف ہے۔

مطالعے میں دیکھا گیا کہ مندرجہ بالا وجوہات میں سے پہلی 3 میں اس سال مزید ابتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مثلا ایران کے شمال مشرقی علاقوں میں نوجوانوں میں بیروزگاری کا تناسب 45 فیصد تک بڑھ چکا ہے اور ان علاقوں میں روزگار کے مواقع مزید کم ہو رہے ہیں۔ ایک سال پہلے ایک امریکی ڈالر 36,000 ایرانی ریال کے برابر تھا لیکن اب اس کی قیمت 42900 ہو چکی ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت بیرون ملک ایرانی اثاثوں سے رقم واپس لا کر ایرانی کرنسی کو مزید گرنے سے بچا لیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ اس قسم کے اقدام سے غیر ملکی سرمایہ کار مایوس ہو جائیں گے، پچھلے ہی ماہ آئی ایم ایف نے ایرانی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ یہ پالیسی ایرانی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ایران کے معاشی اثاثوں کا 60 فیصد سے زیادہ پاسدارانِ انقلاب اور ایسے ہی دیگر اداروں کے ہاتھ میں ہے، چونکہ یہ ادارے ٹیکس ادا نہیں کرتے، اس لئے چھوٹی کاروباری کمپنیوں میں مقابلے کی فضا متاثر ہوتی ہے اور نئی ملازمتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ روحانی حکومت یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، وہ  تمام اداروں کو ٹیکس کا حساب کتاب رکھنے کی پابند اور کاروباری دنیا کو مزید شفاف بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ تاہم خدشہ ہے کہ حکومت معیشت میں کسی قسم کی فوری بہتری نہیں لا سکے گی۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت روزگار کے مواقع بہتر بنانے کے فوری اقدامات کرے لیکن یہ ممکن نہیں کہ حکومت غریب خاندانوں کو نقد مالی امداد بند کر سکے، بینکوں پر دبائو کم کرنے کے لیے معیشت میں تنوع پیدا کرنے جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے صرف دیرپا پالیسی ہی کام کر سکتی ہے۔ ایرانی حکومت کی پالیسی میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔ حکومت کوشش کرے گی کہ وہ لوگوں سے کھل کے بات کرے، ان کے سامنے کوئی نئی پالیسی رکھے، لیکن اصل مسئلہ ایرانی معیشت کے ڈھانچے کی خرابیاں ہیں، جیسے معیشت میں تنوع کا فقدان، بینکوں کے مسائل اور دیگر دنیا کے ساتھ ایران کے مسائل، خاص طور پر ٹرمپ کے ساتھ۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہروں کے حق میں ٹویٹس کیں جبکہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے ایران کی جانب سے اس موقف کو مکمل طور پر بے معنی قرار دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مظاہروں میں بیرونی ہاتھ ہے۔  اطلاعات کے مطابق ہمدان سمیت بعض شہروں میں  اب بھی مظاہرے ہو رہے ہیں، جن میں گرفتار مظاہرین کی رہائی کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply