ڈونلڈ ٹرمپ ہر وقت زہر دیے جانے کے خوف کا شکار

مائیکل وولف کی  تہلکہ انگیز کتاب ''فائر اینڈ فیوری''

مائیکل وولف کی تہلکہ انگیز کتاب ”فائر اینڈ فیوری”

نیوز ٹائم

قلم کی طاقت واقعی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کو جنگوں کے ذریعے قابو کرنے کے خواہش مند ڈونلڈ ٹرمپ، اپنے خلاف لکھی گئی ایک کتاب کا بوجھ بھی برداشت نہ کر سکے۔ اب ان کا جنونی ردعمل دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ جناب دال میں کچھ تو کالا ہے، لیکن حیرت تو خود امریکیوں پر ہے، جو اس بات پر بہ ضد ہیں کہ وائٹ ہائوس میں گذشتہ ایک سال سے پکنے والی پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔2017 ء میں صدارت کے منصب پر براجمان ہوتے ہی میڈیا اور صحافیوں کے خلاف ٹرمپ بیانات نے یہ تو باور کروا ہی دیا تھا  کہ ٹرمپ  اگر کسی طاقت سے خوف زدہ ہیں تو بس  میڈیا کی طاقت سے۔ وہ کہتے تھے کہ صحافی سب سے زیادہ بے ایمان افراد ہیں اور امریکا کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو پریس سے ہے۔ ان کا یہ خوف اس وقت حقیقت بن کر سر پر آن کھڑا ہوا جب  وائٹ ہائوس کے رازوں کو بے نقاب کرنے والی  Michael Wolff’s کی  تہلکہ انگیز کتاب ”فائر اینڈ فیوری” ان سائڈ دی ٹرمپ وائٹ ہائوس منظر عام پر آئی۔

اس وقت سب کی زبانوں پر بس یہی سوالات ہیں کہ آخر یہ Michael Wolff ہیں کون اور وائٹ ہائوس تک  ان کی رسائی کیسے ممکن ہو سکی؟  Michael Wolff برطانوی اخبار The Guardian کے سابق کالم نویس ہیں، امریکا کے نامور جریدوں میں ان کی اشاعتوں کی طویل فہرست موجود ہے۔ بااثر افراد کی رنگا رنگ زندگیوں پر لکھنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ 2002 ء اور 2004 ء میں انہیں بہترین تحریر لکھنے پر نیشنل میگزین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ وائٹ ہائوس جیسی عمارت،  جہاں بنا اجازت پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہو،  وہاں تک Michael Wolff کی رسائی کیسے ممکن ہوئی؟ وہ کیسے وائٹ ہائوس میں ایک طویل وقت گزار کر وہاں ایک، ایک چیز کا جائزہ لیتے رہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے Michael Wolff کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے خود ہی انہیں وائٹ ہائوس میں رسائی کی خصوصی اجازت  دی تھی۔ یہ اجازت نامہ Michael Wolff کے لیے کسی  پاسپورٹ سے کم نہ تھا۔ Michael Wolff بحیثیت کالم نگار ٹرمپ کو بے حد پسند تھے اور یہی پسندیدگی Michael Wolff کو وائٹ ہائوس کے پراسرار  رازوں تک لے گئی۔  ٹرمپ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ وولف ان کے کارناموں کے بارے میں متاثر ہو کر ایسی کتاب لکھیں گے  جس سے دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کی عظمت کی معترف ہو جائے گی، لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوا، Michael Wolff کے تیز تریں الفاظ ٹرمپ امیدوں پر ایٹم بم بن کر گرے  اور ان کی خواہشوں کو زمین بوس کر گئے۔  وائٹ ہائوس میں گزارے وقت کے دوران Michael Wolff نے 200 سے زائد ایسے لوگوں سے انٹرویو کیے جو ٹرمپ کے بے حد قریب تھے۔ ان انٹرویوز کا نچوڑ ہی اس کتاب کی تکمیل کا سبب بنا۔

Michael Wolff نے گذشتہ سال دسمبر میں The Guardian کو اپنی کتاب کے بارے میں آگاہ کیا اور واضح کیا کہ اس کتاب کا مقصد کسی کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ وہ دیانت داری کے ساتھ حقائق سامنے لانا چاہتے ہیں۔ سا تھ ہی انہوں نے The Guardian کو یہ اجازت بھی دی کہ کتاب مارکیٹ میں آنے سے پہلے اس کے کچھ حصے شائع کر دیے جائیں۔ گا The Guardian میں ان حصوں کی اشاعت کے ساتھ ہی ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے اس کتاب پر پابندی لگوانے کی کوششیں تو بہت کیں مگر وہ ناکام ہوئے۔  Michael Wolff نے کتاب پر پابندی عائد کیے جانے کے ڈر کے باعث معین کردہ وقت سے کئی دنوں  پہلے ہی کتاب قارئین کے لیے، مارکیٹ میں پیش کر دی۔

مصنف نے Fire and Fury میں  وائٹ ہائوس کی پراسرار دیواروں سے پردے کھینچے ہیں اور جو راز افشا کیے ہیں انہوں نے امریکی قوم کے سامنے اپنے صدر کی اہلیت کے حوالے سے حیرت میں ڈوبے سوالات کھڑے کر دیے۔ کتاب پڑھنے کے بعد امریکی صدر کی ذہنی حالت سے لے کر ان کی خارجہ پالیسیوں تک، ہر چیز مشکوک قرار پائی ہے۔ Michael Wolff کا کہنا ہے کہ کتاب میں لکھی گئی ایک، ایک بات کے ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور ِصدارت کا پہلا سال مکمل ہونے سے قبل ہی، یہ تو ثابت کر گیا تھا کہ ٹرمپ کو ان کے کارنامے لے ڈوبیں گے، لیکن یہ برا وقت اتنی جلدی آنا تھا، اس کی امید نہیں تھی۔ اب ٹرمپ کتاب کے سرورق پر لگائی گئی اپنی تصویر کی مانند ہی ٹوئٹ پر ٹوئٹ کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بس میں شاید اور کچھ ہے بھی نہیں۔ ٹرمپ تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے Michael Wolff کو کبھی وائٹ ہائوس میں رسائی کی اجازت دی ہی نہیں اور نہ ان کو کوئی انٹرویو دیا ہے۔ نیز انہوں نے  اس کتاب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، لیکن اب ان باتوں کا کیا فائدہ؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔

یوں تو پوری کتاب ہی  انکشافات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کے دلچسپ واقعات پر مشتمل ہے  مگر انتخابات میں ٹرمپ کی صدارت کے اعلان کے بعد ان کا اور ان کی اہلیہ Melania Trump کا ردعمل کچھ زیادہ ہی حیران کن ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ تو انتخابات میں فتح کی امید تھی  اور نہ ہی خواہش تھی بلکہ وہ  تو شکست حاصل کرنے کے بعد، ایک میڈیا برانڈ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے تھے۔  ٹرمپ کبھی وائٹ ہائوس میں رہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔  لہذا جب نئے امریکی صدر کے طور پر ان کے نام کا اعلان ہوا، تو پہلے  وہ بے حد حیران ہوئے پھر پریشان ہو گئے۔ ان کی بیٹی کے بقول ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے باپ نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔  Melania Trump تو بحیثیت صدر ٹرمپ کا نام سنتے ہی رو پڑیں شاید انہیں یقین تھا کہ ان کے مزید برے دن شروع ہو چکے ہیں۔  صدارت کی افتتاحی تقریب والے دن ڈونلڈ ٹرمپ  سارا وقت بیوی پر چیختے چلاتے رہے،  بیوی کے ساتھ ان کا لہجہ تیز اور الفاظ زہریلے تھے Melania Trump آنکھوں میں ضبط بھرے اس  تقریب میں شامل رہیں۔  ٹرمپ کو اس بات پر بھی بے حد غصہ تھا کہ میڈیا کی بہت سی مشہور شخصیات نے افتتاحی تقریب میں آنے سے انکار کر دیا تھا، جسے وہ اپنی بے عزتی سے تعبیر کر رہے تھے۔

Michael Wolff نے اس کتاب میں ٹرمپ کی شخصیت کا ایک انوکھا رخ پیش کیا ہے، جو اب تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ تھا۔ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کے معاون، قریبی دوست حتی کہ اہلخانہ بھی انہیں صدارت کے لیے انتہائی غیر موزوں قرار دیتے ہیں۔ ان کے قریبی دوستوں کی رائے کے مطابق وہ بچکانہ ذہن کے مالک ہیں۔ ایک ہی بات کئی کئی بار دہرانے کے عادی اور انتہائی خراب یادداشت کے مالک ہیں۔ حتی کہ اپنے قریبی لوگوں کے نام تک بھول جاتے ہیں۔ ٹرمپ کسی بھی معاملے پر یکسو رہنے کی صلاحیت سے بھی قطعی محروم ہیں۔  Michael Wolff لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کا سب سے پسندیدہ کھیل دوستوں کی بیویوں کے ساتھ بیڈ روم پر زندگی بسر کرنا ہے۔  وہ عجیب  و غریب عادتوں کے مالک ہیں، خصوصا بیڈ روم کی زندگی میں وہ بے لباس ہو کر بستر پر سونا پسند کرتے ہیں،  اسی لیے بیڈ روم لاک کرنے کے معاملے پر سیکرٹ سروس سے متعدد بار ان کی بحث  ہوئی،  مگر ان کو بیڈ روم لاک کرنے کی اجازت نہیں ملی۔  بقول مصنف، سیکرٹ سروس کا اصرار ہے کہ سیکیوریٹی کے پیش نظر انہیں ہر وقت امریکی صدر تک رسائی حاصل ہونا ضروری ہے،  اور یہ بات ٹرمپ کو سخت ناگوار گزرتی ہے۔

وائٹ ہائوس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کے استعمال میں دو الگ الگ بیڈ روم ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی خواب گاہ میں تین ٹی وی اسکرین لگوا رکھی ہیں، تاکہ وہ ایک وقت میں تین  نیوز چینل دیکھ سکیں۔ صبح ساڑھے چھے بجے بیدار ہو کر ٹرمپ سب سے پہلے اپنی پسندیدہ چیز برگر کھاتے ہیں اور پھر گھنٹوں فوکس نیوز اور سی این این کی نشریات میں گم رہتے ہیں۔ کھانے پینے کے دوران خوراک کے گرنے والے ذرات کی صفائی کی اجازت وہ کسی ملازم کو نہیں دیتے۔ وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں زہر نہ دے دیا جائے، لہذا ان کی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں، خصوصا ٹوتھ برش کو۔

مصنف Michael Wolff لکھتے ہیں کہ صدر کے قریبی مشیر ان کے صدارتی عہدے کے قابل ہونے پر خود ہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سفارتی اور مالیاتی امور پر ٹرمپ کی ذہنی صلاحیتیں صفر ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ، کتاب ان کی پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے بھی انکشافات سے بھری ہوئی ہے۔ خصوصا Stephen Kevin Bannon سے منسوب بیانات نے تو تہلکہ مچا دیا ہے۔ Stephen Kevin Bannon امریکی میڈیا کے ایگزیکٹیو، اہم سیاسی شخصیت، سابق بینکار اور Britt bart نیوز کے سابق چئیرمین رہ چکے ہیں۔ جی ہاں، سابق اس لیے کہ کتاب کی اشاعت کے بعد وہ خود کو قصور وار تسلیم کرتے ہوئے Britt bart نیوز سے بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔

 Stephen Kevin Bannon نے وائٹ ہائوس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف اStrategist کے طور پر 7 ماہ کام کیا اور پھر ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 7 ماہ تک Stephen Kevin Bannon کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے والے ٹرمپ کتاب کی اشاعت کے بعد، ان کے دشمن بن چکے ہیں۔ کتاب میں درج Stephen کے بیانات کو پوری دنیا حیرت بھری آنکھوں سے پڑھ رہی ہے۔  Fire and Fury کے بارے میں یہ تاثر کافی حد تک درست ہے کہ یہ کتاب زیادہ تر Stephen Kevin Bannon کے بیانات ہی پر مشتمل ہے۔ Stephen Kevin Bannon کہتے ہیں کہ ٹرمپ ٹاور میں صدر کے خاندان کے 6 افراد اور روسی اہلکاروں کے درمیان  ہونے والی خفیہ ملاقات،  ریاست امریکا سے ان کی غداری کے مترادف ہے۔ سیاسی  امور کے ماہرین کے مطابق یہ  انکشاف اس کتاب کا سب سے خوفناک حصہ ہے۔ امریکی خفیہ اداروں کا تو پہلے ہی خیال تھا کہ ماسکو نے امریکی انتخابات کو ریپبلیکن کے حق میں موڑنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف بی آئی کے سابق سربراہ Robert Muller کا انتخاب ہو چکا ہے اور یہ تحقیقات ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ایسے وقت میں Stephen Kevin Bannon کا کتاب میں کیا جانے والا انکشاف ٹرمپ کے لیے مصیبتوں کا نیا دروازہ کھولے گا  اور ان کے گِرد تحقیقات کا دائرہ مزید کس دیا جائے گا۔ روسی سرزمین سے جڑے ٹرمپ کے بھاری مالی فوائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکیوں کو ٹرمپ کا روس کی طرف جھکائو ہمیشہ ناگوار ہی گزرتا ہے۔ کتاب میں مزید لکھا ہے کہ Stephen Kevin Bannon و کہتے ہیں کہ ٹرمپ صدارت سے قبل کئی بار روس جا چکے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد پیوٹن سے ملاقات کے سوا کچھ نہیں تھا، مگر ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ملاقات ہو نہ سکی۔

غرض یہ کہ روس میں ٹرمپ کا پھیلائو کاروبار اور دل میں ماسکو کے لیے موجود نرم گوشہ امریکیوں کو کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ امریکی صحافتی حلقوں میں اس کتاب کو ٹرمپ کے لیے مشکلات سے بھری ہوئی یہ کتاب، اس کا واضح اثر 2018 ء میں ہونے والی کیمپ ڈیوڈ میٹنگ پر پڑ سکتا ہے، جہاں اہم ریپبلیکن رہنما مل کر نئے سال کے لیے قانون سازی کی ترجیحات طے کریں گے۔ بلاشبہہ کتاب کی اشاعت نے Stephen Kevin Bannon کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ وائٹ ہائوس کا دروازہ Stephen Kevin Bannon پر بند ہوتے ہی ان کے قریبی اور قابل اعتبار ساتھیوں کا مجمع بھی چھٹ گیا،  نوکری بھی گئی اور ساکھ بھی خراب ہوئی۔ فائدہ پہنچانے والا حلقہ احباب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اب وہ خود کو قصور وار قرار دیتے ہوئے معذرت پیش کر رہے ہیں، لیکن اس طرح وہ دوبارہ ٹرمپ کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔ حال ہی میں دیے گئے ایک بیان میں Stephen Kevin Bannon کہتے ہیں، ٹرمپ پر روس کے حوالے سے عائد کردہ الزامات کے بارے میں تو میں کب سے کہتا چلا آیا ہوں کہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ ٹرمپ کا بیٹا بھی اپنے والد کی طرح عظیم اور وفادار ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس نے کسی روسی اہلکار سے کوئی ملاقات نہیں کی۔ ان بیانات کا ٹرمپ پر کوئی مثبت اثر نہیں ہو رہا بلکہ وہ Stephen Kevin Bannon کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے کہہ رہے ہیں، Stephen Kevin Bannon وائٹ ہائوس سے نکالے جانے کے بعد پاگل ہو چکا ہے۔

صدارت کے پہلے 7 ماہ میں ٹرمپ کے تمام ایگزیکٹیو آرڈرز کے نفاذ کے پیچھے دماغ Stephen Kevin Bannon کا ہی کار فرما ہوتا تھا۔ مسلم ممالک کے شہریوں پر عائد کی جانے والی سفری پابندیاں ہوں یا عالمی معاہدہ پیرس سے امریکی علیحدگی کا فیصلہ، سب میں اسٹیوو کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قومی معاملات میں ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کی مداخلت بڑھنے تک Stephen Kevin Bannon کو بھرپور قوت حاصل تھی، لیکن صدر کے خاندان کے سامنے ان کی طاقت کے غبارے سے ہوا نہایت تیزی سے نکل گئی۔ صدر کے اہلخانہ نے انہیں یہ احساس دلانا شروع کیا کہ Stephen Kevin Bannon اپنے بیانات کے ذریعے میڈیا میں اوقات سے زیادہ جگہ بنا چکا ہے۔  پھر جب ٹائم میگزین کے سرورق پر Stephen Kevin Bannon کی تصویر جگمگائی تو گویا ٹرمپ کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا اور پھر Stephen Kevin Bannon کو جلد ہی وائٹ ہائوس سے گڈ بائے کہہ دیا گیا۔

کتاب کی اشاعت کے بعد ٹرمپ کے داماد کا کہنا ہے، Stephen Kevin Bannon اسٹریٹجسٹ نہیں بلکہ موقع پرست آدمی ہے۔ ٹرمپ کہہ رہے ہیں، اس میں ایسی کوئی صلاحیت سرے سے تھی ہی نہیں کہ اسے وائٹ ہائوس میں ڈال کر رکھا جاتا، سوائے میڈیا میں خودنمائی کی خواہش کے۔  ذہنی صحت کے حوالے سے کتاب میں عائد الزامات کے جواب میں ٹرمپ نے چند روز قبل ایک اور ٹوئٹ میں کہا، پوری زندگی میرے پاس دو بڑے اثاثے رہے ہیں۔  ایک تو میری ذہنی پختگی اور دوسرا میرا اسمارٹ ہونا۔ میں ایک کامیاب تاجر بھی رہا اور ایک مقبول ٹی وی اسٹار بھی۔  پھر ٹرمپ نے اپنے مخصوص چِڑے ہوئے انداز میں لکھا، مصنف Michael Wolff ایک ہارا ہوا آدمی ہے، جس نے جھوٹ سے بھری ہوئی کتاب لکھ کر محض اس کی فروخت بڑھائی ہے۔  اس مقصد کے لیے اس نے نِکمے اسٹیوو کو استعمال کیا ہے جو نوکری سے نکالے جانے کے بعد چِلا رہا ہے۔  اس احمق اور نکمے Stephen Kevin Bannon پر تو اب ہر سمت سے دھنکار پڑے گی۔

کتاب میں لگائے گئے الزامات کے جواب میں ٹرمپ تو اپنی میں نہ مانوں ہی کی ہٹ پر  قائم ہیں مگر شمالی کوریا کے سربراہ Kim Jong Un کے پاس ٹرمپ پر وار کرنے کے لیے ایک نیا ہتھیار آ گیا ہے۔ اب دونوں کے درمیان  ایٹمی جنگ کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ لفظوں کی جنگ بھی شروع ہو گئی ہے۔ شمالی کوریا میں حکومتی سرپرستی میں شایع ہونے والے ایک اخبار نے لکھا، کتاب فائر اینڈ فیوری کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فروخت نے یہ ثابت کر دیا  کہ پوری دنیا میں ٹرمپ مخالف جذبات کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہ امر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ذلت کا باعث ہے۔  اخبار نے مزید لکھا کہ یہ کتاب ٹرمپ کی سیاسی موت کی رنگین داستان ہے۔ اس وقت تو پوری دنیا بالخصوص امریکی قوم کی نظریں ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی صحت پر ہی مرکوز ہیں۔ قوم کو مطمئن کرنے کے لیے ٹرمپ صدارت کے بعد اپنا پہلا مکمل چیک اپ کروانے  کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔ وہ خود کو ایک ذہین انسان قرار دیتے ہیں مگر امریکی عوام کو اب میڈیکل رپورٹوں کی صورت میں ثبوت درکار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ کے عملی اقدامات، ہر وقت ان کے بگڑے ہوئے تاثرات اور ٹوئٹس ان کی خراب ذہنی حالت ہی کے غماز ہیں۔  تاہم وائٹ ہائوس کے ترجمان نے یہ واضح کر دیا  ہے کہ صدر کی ذہنی صحت کو جانچنے کا کوئی چیک اپ نہیں کیا جائے گا، جس سے امریکی عوام کے شکوک و شبہات 200  فیصد  بڑھ گئے ہیں۔ امریکی اخبارات لکھ رہے ہیں، ہم جوہری دور میں رہ رہے ہیں۔ ہماری بقا کا سارا دارومدار صدر کی انگلی کے ایک اشارے پر ہے۔ بحیثیت امریکی ہمارا حق ہے کہ ہمیں صدر کی ذہنی صحت کے بارے میں ہر بات کا علم ہو اور کچھ بھی صیغہ راز نہ رکھا جائے۔ گویا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ Michael Wolff کی کتاب فائر اینڈ فیوری نے امریکی سرزمین پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔  آوازیں بلند ہونے لگی ہیں کہ  اب امریکا کو ٹرمپ کی مزید ضرورت نہیں ہے۔  بعض امریکیوں کا کہنا ہے کہ  اب تک آنے والے تمام امریکی صدور میں ٹرمپ واحد ہیں جو اس زمین سے جڑے ہوئے محسوس ہی نہیں ہوتے۔

5 جنوری کو منظر عام پر آنے والی کتاب فائر اینڈ فیوری کی چار دنوں کے اندر اندر150000 کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ ایمازون کی ویب سائٹ پر یہ اس وقت بیسٹ سیلر کتاب ہے۔ اس کے ناشر ہنری ہالٹ کو ایک ملین سے زائد کاپیوں کی مزید اشاعت کا بھی آرڈر مل چکا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وائٹ ہائوس کی دیواروں کے یوں اچانک بول پڑنے سے صرف ٹرمپ اور Stephen Kevin Bannon کی ہی نہیں بلکہ ناشر کی بھی زندگی بھی پوری طرح تبدیل ہو چکی ہے۔

1776سے 1974ء تک امریکی صدارت پر فائز رہنے والوں کی ذہنی صحت کے بارے میں تحقیقDuke University Medical Center located in North Carolina کے پروفیسر Jonathan David نے اپنے ساتھیوں کے اشتراک سے، سابق امریکی صدور کی ذہنی صحت پر 2006 ء میں ایک تحقیق کی۔ یہ تحقیق Journal of nervous and mental disease میں شائع ہوئی، جس میں 1776ء سے لے کر 1974ء کے درمیانی عرصے میں، امریکا کی صدارتی کرسی پر براجمان ہونے والے صدور کی ذہنی صحت کا مطالعہ کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، اس تحقیق کو امریکی اخبارات میں بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق، اس عرصے کے دوران جو صدور امریکا پر حکومت کرتے رہے ان میں سے آدھے کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار تھے، جبکہ صدارتی معیار پر پورا اترنے والے صدور محض 27 فیصد تھے۔ 24فیصد صدور شدید ڈپریشن کے مریض تھے، ان میں James Madison ، John Quincy Adams ، Benjamin Franklin ، Calvin College اور Abraham Lincoln شامل تھے۔ Abraham Lincoln کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی دوست اور بہن کی وفات کے بعد اتنا ڈپریشن میں چلے گئے کہ ان کے ایک دوست نے اس ڈر سے انہیں کمرے میں بند کر کے رکھا کہ وہ خودکشی نہ کر لیں۔

مزید تحقیق کے مطابق 8 فیصد امریکی صدور اعلی درجے کے اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے، جن میں Thomas Jefferson ،  Ulysses SGrant، Collage and Vedro Wilson شامل تھے۔ اس کے علاوہ تقریبا 8 فیصد امریکی صدور کو schizophrenia کا مرض لاحق تھا، جن میں Lyndon B. Johnson اور Theodore Roosevelt بھی شامل تھے۔ 8 فیصد صدور کثرت شراب نوشی کے عادی تھے۔ Benjamin Franklin کی موت کا سبب یہی لت بنی، گرانٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اتنی شراب پیتا تھا کہ ایک بار نشے میں دھت ہو کر ملٹری پریڈ کے دوران گھوڑے سے ہی گر گیا۔ اس کے علاوہ Nixon ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا تھا، حتی کہ ایک بات تو Nixon ، اپنے دور کے اہم ترین، سوئز بحران کے متعلق گفتگو کے خواہش مند برطانوی وزیر اعظم سے فون پر بات کرنے کے بھی قابل نہ تھا۔  تحقیق کے مطابق Thomas Jefferson ، Ulysses SGrant اور Kiel van Coolidge سماجی خوف کا شکار تھے، لوگوں کے درمیان جانے سے واضح گریز کرتے تھے۔ اس کے علاوہ William Howard Taft کو دوران نیند سانس لینے میں شدید دشواری تھی۔ اس جسمانی عارضے نے ان کی ذہنی صحت پر بھی نہایت منفی اثر ڈالا۔  تحقیق کے آخر میں مصنف انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان سب حقائق کے باوجود ہمارے پاس اب بھی امریکی صدور کی ذہنی صحت پرکھنے کا کوئی قابل اعتبار معیار موجود نہیں ہے۔

No comments.

Leave a Reply