جاپان: آبادی کے لئے امیگریشن قوانین میں تبدیلی زیر غور

جاپانی حکومت نے ملک میں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے بہت سی سہولیات دینا شروع کر دی ہیں

جاپانی حکومت نے ملک میں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے بہت سی سہولیات دینا شروع کر دی ہیں

ٹوکیو ۔۔۔ نیوز ٹائم

دو بچے خوشحال گھرانہ کا اشتہار پاکستان میں کئی دہائیوں قبل ٹی وی اور ریڈیو کی زینت بنتا رہا ہے تاہم ترقی یافتہ ممالک جن میں مغربی ممالک سرفہرست ہیں جبکہ چین اور جاپان جیسے ممالک میں بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر حکومتی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے  جبکہ چین کی حکومت نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر پورے چین میں فی خاندان ایک بچہ کی پالیسی بھی بنا لی تھی جہاں بیجنگ میں خاص طور پر اگر کسی گھرانے میں دوسرا بچہ پیدا ہونے کی امید بھی ہو تو وہاں بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا تھا  یا پھر بچے کو اس دنیا میں آنے سے قبل ہی رخصت کر دیا جاتا تھا  تاہم جاپان میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ جاپان کے عوام نے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بچنے اور تیز رفتار ترقی سے مستفید ہونے کے لیے خود ساختہ پچے پیدا کرنے پر پابندی اختیار کرنا شروع کر دی۔

اس کے سبب جاپان کی آبادی میں تیزی سے کمی ہونا شروع ہوئی اور اس وقت جاپان آبادی میں کمی کے بڑے بحران کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے جاپان کو فوری طور پر امیگرایشن قوانین میں نرمی کرنا ہو گی یا پھر عوام کو وہ سہولیات دینا ہوں گی جس کے تحت جاپانی عوام ازخود بچوں کی تعداد میں اضافے پر غور شروع کر دیں۔

جاپان میں جن وجوہات کے سبب بچوں کی پیدائش میں کمی دیکھی جا رہی ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں:

آزاد اور ذمہ داری کے بغیر زندگی گزارنے کی خواہش جاپان میں گزشتہ 5 دہائیوں سے ہونے والی تیز رفتار صنعتی ترقی کے سبب جاپانی عوام کو ملازمتوں، کاروبار اور پیسہ کمانے کے اس قدر مواقع ملے کہ جاپان میں خاندانی نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا جہاں پہلے ایک آدمی کام کرتا تھا اور بیوی گھریلو مصروفیات کی ذمہ دار تھی وہاں اب دونوں مل کر ملازمتوں میں مصروف رہنے لگے جبکہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل نظر آنے لگا لہذا بچوں کی پیدائش میں جہاں پہلے وقفے کا رحجان تھا وہاں اب صرف ایک بچے یا پھر بغیر بچوں کے ہی خاندان آگے بڑھنے لگا۔

تیز رفتار صنعتی ترقی جاپان میں شدید مہنگائی کا باعث بھی بننے لگی جس کے سبب بچوں کی پرورش کے لیے جہاں ماں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے وہیں بچے کی نگہداشت کے لیے آنے والے مہنگے اخراجات پورے کرنا باپ کے لیے مشکل ہونے لگا لہذا لوگوں نے بچوں کے بغیر زندگی گزارنے کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ یہی نہیں بلکہ بعض جوڑوں نے شادی پر ہونے والے اخراجات سے بچنے کے لیے صرف پارٹنر بن کر بغیر شادی کے بھی ساتھ زندگی گزارنا شروع کر دی جس سے جاپان میں خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچا جبکہ بچوں کے بغیر اور اکیلے زندگی گزارنے کی خواہش، آزادی اور بغیر ذمہ داری کے زندگی گزارنے کی خواہش و معاشی خودمختاری کے بعد خواتین میں انفرادی زندگی گزارنے کی تمنا کے سبب جاپان میں طلاق کا تناسب بھی دنیا میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جاپان میں طلاق عام سی بات ہے، ان تمام معاملات کا دیر سے ہی سہی اب حکومت جاپان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے۔

آبادی میں اضافے کے لیے حکومتی اقدامات

اکیلے زندگی گزارنے سے جاپان میں ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے اسی وجہ سے جاپان میں خودکشی کے واقعات میں بھی بہت اضافہ دیکھا گیا ہے کیونکہ انسان کو زندگی کے ایک مرحلے پر جیون ساتھی اور اولاد کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے اور جب یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو انسان کی مایوسی میں اضافہ ہو جاتا ہے  اور بہت زیادہ مایوسی انسان کو ڈپریشن میں اور پھر بہت زیادہ ڈپریشن انسان کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر دیتے ہیں۔  ان حالات سے نمٹنے کے لیے جاپانی حکومت نے ملک میں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے بہت سی سہولیات دینا شروع کر دی ہیں  جن میں بچوں کی پیدائش سے لے کر 12 سال کی عمر تک ہر بچے کے لیے حکومت نے وظیفہ مقرر کر دیا ہے  جو والدین کے اکائونٹ میں ہر مہینے یا بعض صورتوں میں ہر تین ماہ بعد جمع کر دیا جاتا ہے جبکہ خواتین کو زچگی کی صورت میں بچے کی پیدائش کے تمام اخراجات حکومت کی جانب سے ادا کر دئیے جاتے ہیں جبکہ ہر خاتون کو زچگی کی صورت میں کئی ماہ کی چھٹی تنخواہ کے ساتھ فراہم کی جاتی ہے جبکہ والد کو بھی بیوی کی تیمار داری کے لیے سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت نے صوبوں اور ضلعوں کی سطح پر بچوں کی نگہداشت کے لیے مراکز قائم کیے ہیں تاکہ میاں بیوی دونوں کی ملازمت کی صورت میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے حکومتیں کردار ادا کر سکیں۔

ہر شہر میں فلاح و بہبود کا ادارہ بھی قائم ہے جو بیوہ یا طلاق یافتہ جاپانی خاتون کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے اور اسے رہائش کی فراہمی سے لے کر بچے کے اخراجات تک کے ماہانہ اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔ جاپانی حکومت اپنی جانب سے ملک میں شرح پیدائش میں اضافے کے لیے بھرپور اقدامات تو کر رہی ہے لیکن جاپان میں موجود غیر ملکی شہری بھی جاپان کی آبادی میں اضافے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ اوسطا جاپان میں رہائش پذیر غیر ملکی شہریوں کے ہاں چاہے ان کی اہلیہ جاپانی ہو یا غیر ملکی ان کے ہاں اوسطا شرح پیدائش تین سے چار بچے فی خاندان ہیں لہذا جاپانی حکومت کو ملک میں آبادی میں اضافے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے آنے والے وقت میں جہاں اپنے شہریوں کو مزید سہولتیں دینا ہوں گی وہیں غیر ملکیوں کو ملک میں آنے میں سہولت دینا ہوں گی تاکہ جاپان کی ترقی برقرار رہ سکے۔

No comments.

Leave a Reply