انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ: جان اپڈائیک

انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ: جان اپڈائیک

انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ: جان اپڈائیک

نیوز ٹائم

گھر میں موجود میز پر رکھا ٹائپ رائٹر اسے اپنی جانب کھینچتا تھا۔ قلم اور کورے کاغذوں میں اسے عجیب سی کشش محسوس ہوتی اور ڈاک کے خاکی لفافے بہت پراسرار معلوم ہوتے۔ ان پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنے کی کوشش جیسے اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہ John Updikeکی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔ والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور علمی و ادبی مباحث بھی ننھے John Updikeکی سماعت سے ٹکراتے رہتے۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ اس قابل ہو گیا کہ بچوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے سے ان کو تقویت ملی اور ایک دن نوعمر John Updikeنے قلم تھام کر جذبات اور احساسات کو نظم کر دیا۔ اس پہلی کاوش کے بعد مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی رہنمائی میں John Updike کا قلم مضبوط رہا۔ یہ تخلیقی سفر جاری رہا اور آج John Updike دنیا بھر میں اپنے نظریہ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ John Updike کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے جس کا بچپن عام بچوں سے کچھ مختلف تھا۔ وہ روانی سے بول نہیں سکتے تھے اور ایک ایسے جلدی مرض میں بھی مبتلا تھے جس کے باعث ان کی جلد کی رنگت سفید اور چہرے پر سرخ نشانات پڑ چکے تھے،  مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ وہ اپنے قلمی سفر کی ابتدا کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری رہنمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔

John Updike کی تاریخِ پیدائش 18 مارچ اور سال 1932ء ہے۔ ابتدائی عمر میں وہ عام بچوں کی طرح مہم جوئی پر مبنی قصوں، طلسماتی اور تجسس سے بھرپور کہانیوں میں دلچسپی لیتے رہے۔ وقت کے ساتھ ان کا علم اور مشاہدہ بڑھا تو خود بھی مختلف موضوعات پر قلم اٹھانے لگے۔ نوعمری کا دور ختم ہوا تو John Updike نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا باقاعدہ اظہار کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی اور مسائل کو بیان کیا اور یوں باقاعدہ لکھنے کا آغاز ہوا۔ John Updike کی تخلیقات نے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین کو متوجہ کر لیا۔ ان کے عام مضامین کا موضوع سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جبکہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا۔ John Updike کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی نے ناقدین کو چونکا دیا۔ John Updike کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور John Updike کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق John Updike نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا  اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اول کے تخلیق کاروں میں شمار ہوئے۔ دورانِ تعلیم John Updike ایک مقامی روزنامہ ریڈنگ ایگل سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہو گئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور فکری پختگی کا ذریعہ بنی۔ اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950 میں John Updike نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دلچسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اور کارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ John Updike کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں شائع ہونے والے John Updike کے کارٹونز بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹس میں یہی دلچسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہو گیا۔

انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران ان کی ملاقات امریکی قلم کاروں EB White and Catherine White سے ہوئی  جنہوں نے John Updike کی تخلیقات کی ستائش کے بعد New Yorker کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد John Updike امریکا لوٹے اور New Yorker کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء  میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب John Updike کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ John Updike کے ذہن کو اجاگر کرتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔  John Updike کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کر چکے تھے۔ ا John Updike گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ John Updike کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ John Updike نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔John Updike نے اپنے گرد و پیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بنیں۔ یہ تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔ وہ معاشرے کی خامیوں اور تلخ حقائق کی منظر کشی میں ملکہ رکھتے تھے۔ John Updike مصلحت کوش نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوئوں پر بات کی جنہیں اس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا اور اس پر تنقید کا نشانہ بنے۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویے بھی رہے۔

اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع Boston اور نواح کی زندگی تھی۔ اس ناول کو بے حد مقبولیت ملی اور یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ یہ ناول John Updike کو معروف امریکی میگزین ٹائم کی کور اسٹوری تک لے آیا۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ John Updike نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ وہ اپنے نظریہ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ایک مرتبہ پھر ٹائم میگزین نے اس پر اسٹوری شائع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔ John Updike کا پہلا ناول The poorhoise fair تھا جبکہ 1958ء میں نظموں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان The Carpentered Hen تھا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز New Yorker کا حصہ بنتی رہیں اور ناقدین نے انہیں انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کیا،  تاہم John Updike کی وجہِ شہرت ان کے ناول بتائے جاتے ہیں۔ ان کے دیگر مشہور ناولوں میں  The Witches of Eastwick شامل ہے جو 1984ء  میں شائع ہوا۔ یہ ناول تین عورتوں کے گرد گھومتا ہے۔  اس کے علاوہ Bech سیریز کی تین کہانیوں کے بعد Rabbit سیریز نے مقبولیت کی تمام سرحدیں پار کر لیں۔  یہ ایک ایسے شخص کی سرگزشت ہے جو باسکٹ بال اسٹار کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ اس کی زندگی کے اتار چڑھائو اور مختلف واقعات کو John Updike نے اپنے منفرد اسلوب میں بیان کیا تھا جسے ناقدین نے ایک شاہ کار قرار دیا۔ 1963میں ان کا ناول The Centaur شائع ہوا جس پر نیشنل بک ایوارڈ کے حقدار قرار پائے۔ Rabbit سیریز کی بات کی جائے تو ایک کہانی Rabbit Is Rich کو 1982ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا جبکہ 1991ء میں Rabbit at Rest بھی یہی ایوارڈ لے اڑی۔ 1994 میں John Updike کا ایک ناول شائع ہوا۔ اس کا نامTristan and Isolde  تھا۔ یہ جنوبی امریکا کی مختلف نسلوں کی داستان تھی۔ اس ناول میں مذہب، معاشرتی روایات، سماجی اقدار اور محبت جیسے لطیف جذبے کی لفظی منظر کشی کی گئی ہے۔ 1996 آیا تو John Updike قارئین کے سامنے چار نسلوں کی کہانی لے آئے۔ یہ ناول In the Beauty of the Lilies کے نام سے شائع ہوا جس کی کہانی  Wilmot فیملی کے گرد گھومتی ہے  اور 1910ء سے شروع ہونے والے واقعات کا سلسلہ 1990ء  تک جاری رہتا ہے۔

9/11 نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سانحے نے قلم کاروں کو بھی متاثر کیا اور دہشت گردی اہم موضوع بن گیا۔ 2006 میں John Updike نے Terrorist نامی ناول لکھا جس کا مرکزی کردار 18 سالہ نیوجرسی کا ایک انتہا پسند ہے۔ 1997 میں ان کا سائنس فکشن ناول Toward the End of Time قارئین تک پہنچا۔ یہ امریکا اور چین کے مابین فرضی جنگ اور اس کے بعد کے حالات پر مبنی کہانی ہے۔ 2008 میں The Widows of Eastwick شائع ہوا، جو 1984 ء میں لکھے گئے ناول کی کڑی ہے۔ یہ ان کی زندگی کا آخری ناول ثابت ہوا۔ اس سے اگلے برس 27 جنوری کو وہ پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔ ا John Updike نے 2 شادیاں کیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے اور اس سے شادی کر لی جو 1974 ء تک چل سکی۔ 1977 میں ان کی ملاقات Martha سے ہوئی جو طلاق یافتہ اور تین بچوں کی ماں تھی۔ John Updike نے ان سے دوسری شادی کی۔ دنیا بھر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے اس عظیم لکھاری کو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ امریکی حکومت نے بھی ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ 1998 میں John Updike کو اس وقت کے امریکی صدر Bush Senior نے National Medal of Art دیا۔ 2003 میں Bush Jr. کی حکومت میں وہ National Medal of Humanities کے حق دار ہوئے ۔ وہ National Institute of Arts and Letters کے سب سے کم عمر رکن منتخب ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ رکنیت کے وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔

No comments.

Leave a Reply