افغانستان کا سب سے منافع بخش کاروبار

ڈالروں کی چمک نے افغان حکمران طبقے کو اندھا کر کے اسے مغربی طاقتوں کا غلام بنا دیا

ڈالروں کی چمک نے افغان حکمران طبقے کو اندھا کر کے اسے مغربی طاقتوں کا غلام بنا دیا

نیوز ٹائم

انتیس جنوری کی صبح طالبان جنگجوئوں نے افغان دارالحکومت کابل میں واقع ملٹری اکیڈمی پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں 11 افغان فوجی مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ حملے کے فوری بعد افغان وزارت خارجہ کے ایک اعلی افسر نے ٹویٹ کیا: ملٹری اکیڈمی میں دہشت گردوں نے جو اسلحہ استعمال کیا وہ پاکستان نے سپلائی کیا تھا۔ افغان حکومت کا یہ وتیرہ بن چکا کہ جب بھی طالبان، ISIL یا اس کے دیگر مخالف گروہ کوئی حملہ انجام دیں تو وہ فوراً پاکستان پر الزام لگا دیتی ہے کہ حملہ آوروں کو پاک افواج کی مدد حاصل تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی فوج بھی یہی راگ الاپ رہی ہے کہ افغانستان میں حکومت سے برسرپیکار طالبان کو پاکستان کی مدد حاصل ہے۔ سچ یہ ہے کہ افغان حکمران طبقے اور امریکا نے اپنے اپنے مفادات کے تحت پاک افواج کو قربانی کا بکرا بنا لیا ہے۔ افغان حکمران طبقہ تو پاک افواج کو نشانہ بنا کر اپنی کرپشن اور ہوس اقتدار چھپانے کی سعی کرتا ہے  جبکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور افغانستان میں اپنی عبرتناک عسکری شکست کا قصور وار انھیں ٹھہرا کر آزاد ہونا چاہتی ہے۔ افغان حکمران طبقے اور امریکی حکومت کے الزامات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے،  تو افشا ہوتا ہے کہ آخر افغانستان میں کس قسم کا لالچ و ہوس پہ مبنی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

1979 میں سویت یونین، افغانستان پر حملہ آور ہوا، تو حملہ آوروں سے نمٹنے کی خاطر پاکستان نے افغانوں کو ہر ممکن امداد دی۔ لاکھوں افغانوں کو پناہ دی گئی اور انہیں اسلحہ بھی دیا گیا تاکہ وہ غاصبوں سے لڑ سکیں۔ پاکستان کی عملی مدد کے باعث ہی افغان، سویت یونین جیسی سپر پاور کو شکست دے سکیں۔ 1989 میں سوویت فوج واپس گئی تو بدقسمتی سے اقتدار کی خاطر افغان مجاہدین کے مختلف گروہ ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔  1993 میں طالبان حکومت آنے سے خانہ جنگی ماند پڑی مگر اقلیتوں نے پشتونوں کے اقتدار کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔  یہی وجہ ہے، القاعدہ رہنمائوں کے پیچھے امریکی افغانستان آ پہنچے، تو طالبان کے سبھی مخالف گروہ ان سے مل گئے۔ 2002 میں امریکیوں نے افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی۔ تب سے یہ افغان حکومت، امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے دی گئی امداد کے سہارے ہی زندہ ہے۔ افغان حکومت کے سالانہ بجٹ کی 90 فیصد رقم اسی غیر ملکی امداد پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ افغان حکومت کو اگر یہ غیر ملکی امداد نہ ملے، تو وہ آن واحد میں ملیامیٹ ہو جائے۔ اس کی ساری شان و شوکت امریکا و مغربی ممالک سے ملی بھیک کی ہی مرہون منت ہے۔

ایک اندازے کے مطابق امریکا اور مغربی ممالک 2002ء سے 2018ء تک افغان حکومت کو تقریبا 150 ارب ڈالر فراہم کر چکے۔ اب بھی افغان حکومت کو 4 سے 5 ارب ڈالر کے مابین ہر سال امریکی و یورپی امداد مل رہی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک اپنے عوام کو یہ کہہ کہ مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ افغان حکومت کو دی گئی امداد سے افغانستان میں عوامی فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبے انجام پاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ بات سچ ہے؟ یہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے جو امریکی و مغربی حکومتیں اپنے عوام کو دیتی چلی آ رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ آج بھی 50 فیصد افغان عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک میں بیروزگاری عام ہے اور کروڑوں افغانوں کو پانی اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ ہزارہا افغان پیٹ بھرنے کی خاطر افیون اگانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم پانے کی خاطر سکول نہیں اور نہ ہی علاج کرانے کے لیے ہسپتال، بس افغان عوام اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ افغان حکمران طبقے کو ملا 150 ارب ڈالر کا زر کثیر کہاں گیا؟ یہ اربوں ڈالر غریب افغان عوام کی قسمت کیوں نہیں بدل سکے؟ مزید براں لاکھوں امریکی و نیٹو فوجیوں نے 15 برس افغانستان میں قیام کیا۔ ایک تخمینے کی رو سے افغان جنگ پر امریکا اور نیٹو ممالک کے ایک تا ڈیڑھ ٹریلین ڈالر خرچ ہو چکے۔ اس رقم کا کثیر حصہ بھی افغانستان میں خرچ ہوا مگر وہ بھی افغان عوام کی ویران زندگیوں میں بہار نہیں لا سکا۔  لہذا یہ کھربوں ڈالر آخر گئے کہاں؟ دراصل ان کھربوں ڈالر کا معمولی حصہ ہی افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوا۔  بیشتر ڈالر افغان حکمران طبقہ اور امریکی و نیٹو کے ٹھیکے دار و متعلقہ نجی ادارے ہڑپ کر گئے۔ افغانستان کا شمار آج بھی دنیا کے غریب ترین اور معاشی طور پر نہایت کمزور ممالک میں ہوتا ہے مگر افغان جنگ نے مٹھی بھر افغانوں اور امریکی و یورپی نجی کمپنیوں کی قسمت ضرور بدل دی۔

افغانستان میں حکومت کرنے والا حکمران طبقہ سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں، قبائلی سرداروں، گورنروں، ججوں، پیروں، ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے مالکان، صحافیوں، دانشوروں اور تعلیم، معاشیات و غیرہ جیسے علوم کے نام نہاد ماہرین پر مشتمل ہے۔ یہ پورا افغان طبقہ امریکا اور نیٹو ممالک کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے تاکہ وہ افغانستان میں اپنا قبضہ برقرار رکھ سکیں۔  اس کی وجہ صاف ہے اس افغان حکمران طبقے کو ڈالروں کی چمک دمک نے اندھا کر دیا ہے۔ آج افغانستان میں حملہ آور اور غاصب امریکیوں اور یورپیوں سے شراکت کرنا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا۔  جس افغان کو کمائی کرنی ہو، وہ ایک این جی او کھولتا، سرکاری افسروں کو رشوت دیتا اور غیر ملکی امداد کے ایک حصے سے مستفید ہونے لگتا ہے۔ آج کرپشن افغان حکمران طبقے کی نس نس میں بس چکی اور رشوت لینا دینا زندگی کا چلن بن گیا ہے۔ افغان حکومت کے ایوانوں میں سچ اور جھوٹ، حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو چکی اور وہاں زیادہ سے زیادہ ڈالر کمانے کا رواج عام ہو چکا۔

ظاہر ہے، افغان حکمران طبقہ اپنا یہ منافع بخش کاروبار کسی صورت ختم نہیں کر سکتا۔ غیر ملکی امداد تو اس کی لائف لائن بن چکی۔ وہ اسی کے ذریعے کمائی کر رہا ہے۔ لہذا یہ کاروبار تقاضا کرتا ہے کہ افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہ ہونے پائے۔ امن بحال ہوا، تو رفتہ رفتہ غیر ملکی امداد میں کمی آ جائے گی اور یوں افغان حکمران طبقہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ لہذا اس طبقے کا سب سے بڑا مفاد یہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی مسلسل جاری رہے تاکہ ان کے شراکتدار امریکی و مغربی سرزمین افغان پر براجمان رہیں اور اسے غیر ملکی امداد کی صورت خرچہ پانی ملتا رہے۔  یہ وہ شیطانی چکر ہے جس نے آج افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔  اس قبیح چکر کے باعث افغانستان ہی نہیں پورے خطے میں بے پناہ مسائل پیدا ہو چکے۔ اول مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکمران طبقے میں شامل تقریباً ایک لاکھ افراد نے بقیہ ساڑھے تین کروڑ افغانوں کو اپنا یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ ایک لاکھ افراد غیر ملکی امداد ہی نہیں سارے ملکی وسائل پر بھی قابض ہیں۔  غیر ملکی امداد اور قومی آمدن کا بیشتر حصہ اس طاقتور اور بااثر حکمران طبقے کی تجوریوں اور بیرون ملک واقع اکائونٹس میں چلا جاتا ہے۔  افغان عوام کو صرف اتنا حصہ ملتا ہے کہ وہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ دوسری طرف پاک افواج افغان حکمران طبقے کا خاص نشانہ بن چکیں۔  وجہ یہ کہ یہ طبقہ جانتا ہے، صرف پاک افواج وہ قوت ہے جو طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کرا کر افغانستان میں امن لا سکتی ہے۔ لیکن واضح کیا جا چکا کہ افغان حکمران طبقے کا مفاد اسی میں ہے کہ امریکی و نیٹو افواج افغانستان میں موجود رہیں،  اس لیے وہ امن لانے کی تمام پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرتا رہتا ہے۔  یہی نہیں، افغان میڈیا پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کرنے لگا ہے کہ وہی افغانستان میں خانہ جنگی کا ذمے دار ہے۔  اس پروپیگنڈے کی وجہ سے افغان عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے اور وہ اسے اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔

30 جنوری کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر محمد فیصل نے بذریعہ ٹویٹ انکشاف کیا  کہ پاکستان نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے 27 جنگجو افغانستان کے حوالے کیے ہیں۔  یوں پاک افواج یہ تاثر زائل کرنا چاہتی ہے کہ وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایتی ہیں۔  مگر افغان حکومت نے یہ راگ الاپنا ختم نہیں کیا کہ پاکستان دہشت گردوں یعنی طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ کرپٹ افغان حکومت کی نظر میں یقینا طالبان دہشت گرد ہیں، مگر لاکھوں افغان عوام انہیں حقیقی محب وطن سمجھتے ہیں۔ طالبان نے جن علاقوں میں اپنی حکومتیں قائم کر رکھی ہیں، وہاں عام انسان کو انصاف ملتا ہے۔ قانون کی عملداری ہے اور کرپشن کا تو نام و نشان نہیں۔ انہی خصوصیات کی بنا پر طالبان افغان معاشرے میں زندہ ہیں۔ پچھلے 16 سال کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج تمام تر عسکری طاقت اور جدید ترین اسلحے کے باوجود انہیں ختم نہیں کر سکیں۔ حال ہی میں بی بی سی کی ایک تحقیقی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان افغانستان کے 70 فیصد علاقے میں سرگرم ہیں۔ نیز انھیں 14 اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل ہو چکا۔

سابق ڈیموکریٹک صدر اوباما نے اعلان کر دیا تھا کہ 2018ء تک ساری امریکی فوج واپس وطن آ جائے گی۔ اس کے بعد یقینا امریکا، افغان حکومت کی مالی مدد سے بھی ہاتھ کھینچ لیتا۔ لیکن ریپبلکن صدر، ٹرمپ کے آنے سے حالات بدل گئے۔ تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے تمام اہم مشیر سابق یا حاضر جرنیل ہیں۔ یہ مشیر امریکی افواج کے اس جنگجو طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف وجوہ کی بنا پر افغانستان میں مسلسل قیام کرنا چاہتا ہے۔ ایک وجہ اس مملکت کی نہایت اہم جغرافیائی پوزیشن ہے۔ یہ دو ابھرتی ہوئی طاقتوں چین اور روس کے درمیان واقع ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں افغانستان میں اپنے اڈے قائم کر کے چین اور روس کے خلاف جاسوسی سرگرمیاں باآسانی انجام دے سکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو خوش کرنے کی خاطر بھی افغانستان میں امریکی فوج کا قیام بڑھایا۔

امریکا ایشیا اور یورپ میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ روکنے خصوصا چینی حکومت کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ناکام بنانے کی خاطر بھارت کو آگے لانا چاہتا ہے۔ لہذا امریکی حکومت بھارت کی  خواہش پر عمل کر رہی ہے۔ اگرچہ چین بھی خاموش نہیں بیٹھا اور امریکی و بھارتی حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دینے کی خاطر وہ افغانستان میں فوجی اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کا مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں قدم جما لے تاکہ پاکستان کو دو اطراف سے گھیرے میں لے سکے۔ اسی لیے بھارت بھی پچھلے 16 سال کے دوران افغان حکمران طبقے کو اربوں روپے دے چکا تاکہ اسے خوش کیا جا سکے۔ بھارت سے کثیر پیسہ ملنے کے باعث ہی افغان حکمران بھارتیوں کے آگے بچھے جاتے ہیں۔ افغان حکمران طبقے کو اپنی مٹھی میں لے کر بھارت کے لیے آسان ہو گیا کہ وہ بلوچستان و سندھ میں سرگرم پاکستان دشمن قوتوں کو اسلحہ و ڈالر فراہم کر سکے۔  مزید براں افغانستان میں معدنیات کا خزانہ بھی امریکی کمپنیوں کے لیے باعث کشش ہے۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ امریکی کمپنیوں نے کوئلے کی افغان کانوں میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات کا خزانہ پوشیدہ ہے۔

افغان عوام کو جنگوں اور خانہ جنگی کا عذاب سہتے تقریبا 40 برس ہو چکے۔ نہ جانے ان پہ ٹوٹی یہ ارضی قیامت کب ختم ہو گی۔ غرض افغانستان میں امریکا کی طویل ترین جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی اور اس کا کوئی انت نظر نہیں آتا۔ خطرناک بات یہ کہ امریکیوں کی اس مفاداتی جنگ کے باعث پاکستان بھی انتشار و بدامنی کا شکار رہے گا۔ ہزارہا میل دور بیٹھی سپر پاور کا ساتھی بن کر پاکستان نے کھویا تو بہت کچھ ہے لیکن اسے فوائد کم ہی ملے۔ کیا اس تلخ سچائی سے ہم کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟

No comments.

Leave a Reply