ڈیربنٹ روس کا قدیم ترین شہر

ڈیربنٹ روس کا قدیم ترین شہر

ڈیربنٹ روس کا قدیم ترین شہر

ڈیربنٹ روس ۔۔۔ نیوز ٹائم

Derbent کا یہ شہر between the Black and Caspian Seasاور دور یورپ اور ایشیا کے سرے پر سر اٹھائے کھڑے Caucasus Mountain کے درمیان واقع ہے۔ اس کو ہم ایران اور روس کے درمیان ایک بڑی نمکین جھیل بھی کہہ سکتے ہیں  جسے Volga River اپنا پانی فراخ دلی سے فراہم کر کے بھرتا ہے اور علاقائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی اور حسن کا باعث بھی بنتا ہے۔ واضح رہے کہ Volga River دنیا میں پانی کا وہ  سب سے بڑا  ٹکڑا ہے جو خشکی  کے اندر دور تک گھس آیا ہے۔  اسی سنگم پر Derbent کا قدیم اور تاریخی شہر واقع ہے۔

٭Derbent کا لفظ کہاں سے آیا؟

یہ اصل میں  قدیم Persian word Darband سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: بند دروازے۔ ماضی بعید میں یہاں سمندر پر اس انداز کی پہاڑیاں تھیں جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی بند دروازہ کے سامنے کھڑا  ہے  اور سمندر کو چیلینج کر رہا ہے کہ خبردار اگر تم ادھر آئے تو تمہاری خیر نہیں۔ اس طرح افسانوی طور پر یہاں سمندر کے سامنے دروازے بندکر کے گویا اسے بتا دیا جاتا تھا کہ تمھاری حد اور حکمرانی بس وہیں تک ہے۔

٭ تاریخی اہمیت: بہرحال اس ماضی کے قدیم اور تاریخ شہر Derbent کو روس کا قدیم ترین شہر مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح سے بتایا جاتا ہے۔  دنیا بھر میں اس شہر کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ اس اہم ترین محل وقوع کی وجہ سے تاریخ کے گزرتے ادوار کے ساتھ ساتھ اس شہر کی ملکیت بارہا بدلتی رہی۔  کبھی یہ اہل فارس کے زیر اثر میں رہا تو کبھی عربوں نے اس پر حکمرانی کی اور کبھی اس پر Mongol قابض ہو گئے  تو کبھی  Timur Lang کی افواج نے اس کو اپنے قبضے میں کر لیا، Shirvanshahs نے بھی اس پر بہت طویل عرصے تک حکومت کی، مگر انہوں نے اس شہر کی ترقی اور خوش حالی کے لیے متعدد منصوبے بھی بنائے اور بڑی جدوجہد بھی کی۔  اس کے ساتھ ساتھ   فارس یعنی ایران  کی سلطنتوں اور حکومتوں نے بھی اس شہر پر بے مثال کی سربلندی کے لیے بڑے کام کیے، شاید اسی لیے یہ شہر آج بھی تاریخ میں زندہ بنا ہوا ہے۔

٭ انیسویں صدی: پھر 19ویں صدی آئی تو ماضی کے اس  قدیم اور شان دار شہر کی باگ ڈور ایرانیوں کے ہاتھوں سے نکل کر  روسیوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔  اقدار کی یہ منتقلی 1813ء کے  گلستان معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھی۔

٭ شاندار تاریخ: یہ Derbent کوئی معمولی شہر نہیں ہے، بلکہ اس کی تاریخ کم و بیش 5000 سالوں پر محیط ہے، اسی لیے اسے روس کا قدیم ترین شہر کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ Derbent شہر روس کا انتہائی جنوبی شہر  اور Dagestan کا دوسرا سب سے اہم شہر سمجھا جاتا ہے۔ ماضی کا یہ شاندار اور پرشکوہ شہر Derbent جو  زمانہ قدیم میں کانسی کے عہد کی ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتا تھا، بعد میں Medieval Europe وسطی کے عظیم الشان  شہروں میں  شمار کیا گیا۔ اس شہر نے وہ ترقی کی کہ دنیا اسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔  کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شروع سے ہی ایک زبردست شہری (اربن) ڈھانچا ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک ایسی تنگ سمندری پٹی کے میدانوں میں واقع ہے جس کی چوڑائی 3 کلومیٹر سے بھی کم ہے۔  اس کے ساتھ دفاعی چوڑی دیواریں بھی ہیں جو دور تک Caucasus پہاڑوں میں کوئی 40 کلومیٹر تک اندر چلی گئی ہیں۔

٭ ایک بے مثال محل وقوع اور آمدنی کا ذریعہ: پورے Caucasus خطے میں Derbent کی پوزیشن Caspian Seas اور پہاڑوں کے درمیان  بڑی زبردست ہے۔ اس کی وجہ سے Derbent کے حکمرانوں کو وہ پوزیشن مل گئی کہ وہ یورپی ایشیا اور  مشرق وسطی کے درمیان گزرنے والے ٹریفک کو کنٹرول کرتے تھے اور یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں پر  لیوی ٹیکس بھی وصول کرتے تھے۔ Derbent کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے بہت سے حکمرانوں کو بہت محبوب رہا۔ یہ شہر شروع سے ہی بڑی تاریخی اہمیت کا حامل رہا۔ اس شہر کا یہ نیا اور جدید ترین نام اسے چھٹی صدی  عیسوی میں اس وقت دیا  گیا جب  اس شہر کو ازسر نوتعمیر کیا گیا  اور یہ اہم کام فارس کے ساسانی حکمرانوں نے کیا تھا۔

٭ دفاعی فصیلیں:

Derbent کی شان دار جڑواں پتھروں کی دیواریں جو پہاڑوں سے لے کر سمندر تک پھیلی ہوئی ہیں، اسی پہلے دور میں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہ دیواریں 12 میٹر بلند اور 3 میٹر چوڑی ہیں اور دونوں کے درمیان 300 سے 400 میٹرز کا فاصلہ ہے۔ Derbent کا قدیم شہر انہی دونوں دیواروں کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔  البتہ ان دیواروں یا فصیلوں کے باہر ہر چیز نئی اور جدید ہے۔ یہاں Naryn-Kala نامی قلعہ بھی واقع ہے جو اس پہاڑی کے اوپر واقع ہے جو شہر کے اوپر لٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔  یہ دفاعی قلعہ ان دفاعی تعمیرات کے مرکز یا قلب میں واقع ہے۔

٭ عربوں کے زیرتسلط:654  میں Derbent عربوں کے زیرتسلط آ گیا اور انہوں نے اسے دروازوں کا دروازہ  کا نام دیا تھا یعنی دروازوں کا دروازہ  جس سے اس شہر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  ان عربوں نے اس شہر کو ایک اہم ترین انتظامی مرکز میں بدل دیا اور  یہاں اسلام کی تبلیغ بھی کی اور اس  کی نشر و اشاعت بھی کی جس سے یہاں اسلام کو فروغ ملا۔ اس دور میں یہاں مساجد بھی تعمیر ہوئیں اور جامع مساجد یعنی بڑی مساجد بھی بنوائی گئیں۔

٭ Derbent کی آبادی:

نویں صدی عیسوی میں Derbent سب سے بڑا شہر تھا جس کی آبادی 50,000 سے زائد نفوس پر مشتمل تھی۔ عربوں کے بعد یہ خطہ امریکیوں کے زیراثر آ گیا جنہوں نے وہاں ایسی مضبوط اور مستحکم سلطنت کی داغ بیل ڈالی  جو 13ویں صدی تک قائم رہی  جس کے بعد قدیم اور جنگجو  منگولوں نے   اس صدی کے اوائل میں اس خطے پر اپنا قبضہ جما لیا۔

٭ حکمرانوں کی تبدیلی: Derbent کی قسمت کے بارے میں تاریخ نے بھی اس کے ساتھ بڑے بڑے مذاق کیے،  تاریخ داں اس بات پر حیران ہیں کہ  اس کے بعد آنے والی کئی صدیوں میں اس شہر کے حکمراں بدلتے رہے اور یہ شہر مختلف لوگوں اور افراد کے زیرتسلط آتا رہا۔ ایک زمانے میں یہ شہر Shirvanshahs بادشاہوں کے   کنٹرول میں بھی رہا جو  Azerbaijan کے ایک جدید سلطنت تھی۔  انہیں Shirvanshahs کہا جاتا تھا۔  یہ ان کا خطاب بھی تھا اور لقب بھی۔  ان کے علاوہ یہاں یعنی Derbent  پر  ایرانیوں نے بھی حکومت کی  اور عثمانیوں نے بھی اور انہوں نے اپنے اپنے حساب سے اس شہر کو ترقی بھی دی  اور اسے آنے والے وقتوں کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم شہر بنایا جس پر انہوں نے بڑی شان اور وقار کے ساتھ حکومت کی۔  پھر  19ویں صدی میں  روس اور فارس کی جنگ کے خاتمے پر  Derbent  Dagestan کے بڑے حصوں کے ساتھ  روسی بادشاہت میں شامل ہو گیا۔

٭ آج کا  Derbent: آج  کا   Derbent  ایک جدید شہر بن چکا ہے جس کی دفاعی فصیلیں اور یہاں کی زمانہ قدیم کی باقیات اور کھنڈرات دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے  کشش کا باعث ہیں جو دنیا بھر کے ملکوں سے بڑے شوق سے انہیں دیکھنے یہاں  آتے ہیں۔ ان دفاعی فصیلوں پر بنائے گئے حفاظتی مینار آج بھی پرانی حالت میں موجود ہیں۔ ان میناروں میں محفاظ بھی ہوتے ہیں اور وہ حسب دستور اس دفاعی فصیل کی نگرانی کرتے ہیں۔

٭ خلیفہ ہارون الرشید اور Derbent: کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں معروف عباسی  خلیفہ،  Caliph Haroon ur Rasheed بھی اس عظیم تاریخی شہر میں رہتا تھا، اسی نے اس شہر کو آرٹس اور  تجارت و سوداگری کا مرکز بنایا تھا۔ وہ ہمیشہ سے فنون کا دیوانہ تھا، علم  کے فروغ کا شیدائی تھا اور دنیا بھر میں اس نے اپنی دلچسپی کی وجہ سے علم و ادب کی بڑی خدمت کی۔ عرب تاریخ دانوں کے مطابق 9ویں صدی عیسوی میں  Derbent  کی آبادی تقریباً 50000 تھی  اور 10ویں  صدی عیسوی میں عربوں کے زوال کے بعد   Derbent امارات کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ مگر چونکہ یہ اکثر اپنی پڑوسی عیسائی ریاستوں سے برسرپیکار رہتے تھے، اس لیے تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب اس کی پڑوسی عیسائی ریاست  Sarir کو اس کی سیاست میں دخل اندازی کا موقع مل گیا، اس کے باوجود امارات نے اپنے حریف کو شکست فاش دے کر اپنی ترقی اور خوش حالی کے حصول کا سفر جاری رکھا۔ یہ بات 1239 عیسوی کی ہے جب اس خطے پر Mongols نے دھاوا بولا تھا۔ 14ویں صدی میں  Derbent پر Timory سپاہ نے قبضہ کر لیا۔

٭ شروان شاہوں کا عہد: Shirvanshahs شاہوں کا عہد اس خطے پر 861 سے 1538 تک قائم رہا۔ غالبا یہ  اسلامی دنیا کا سب سے طویل دور تھا جو اس علاقے یا اس قدیم تاریخی شہر نے دیکھا تھا۔ یہ عہد اپنے ثقافتی کارناموں اور جیوپولیٹیکل تحقیق اور ریسرچ کے حوالے سے بے مثال تھا۔ Shirvanshahs کے بادشاہ Shirvanshahs شاہ کہلاتے تھے۔ انہوں نے 18ویں SHAH FARIDOON اول  کے دور سے متعدد بار Derbend پر حملے کیے گئے اور اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کی  جاتی رہی، شروع میں تو وہ کامیاب نہ ہو سکے، مگر وہ وقت بھی آیا جب  آخر کار وہ کامیاب ہوا۔  اس شہر پر حکمرانی کرنے کے لیے گورنر مقرر بھی کر دیا گیا، پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس شہر کے حاکم بھی بدلتے چلے گئے اور یہ شہر ایک بار پھر ماضی کی دھول میں دب گیا۔

٭ 21ویں شروانی بادشاہ کا کارنامہ: اس کے بعد 21ویں Shirvanshahs بادشاہ نے اس شہر کو فتح کر لیا،  مگر بعد میں  شمالی غارت گروں نے اسے ان سے پھر چھین لیا اور اس شہر کی قسمت ایک بار پھر تاریکیوں میں کھونے لگی۔

٭ ابراہیم اول کا عہد: Timor Lang کے بعد Abraham First جو 33واں Shirvan بادشاہ تھا، اس نے Shirvan پر عمدگی سے حکمرانی کی اور اسے ایک آزاد ریاست قرار دے دیا۔ Abraham First نے Shirvan کی قسمت ہی بدل ڈالی۔ اس نے اپنی ریاست کی حدود میں بھی اضافہ کیا۔  اسی بادشاہ نے 1437 میں Derbend کے شہر کو فتح کر لیا۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ Shirvans نے Derbend شہر کو سیاسی بنیادوں پر بھی مستحکم کیا  اور اس کے لیے متعدد اچھے فیصلے بھی کیے، یہ انہی شاہوں کی عمدہ پالیسیاں تھیں  جن کی وجہ سے اس شہر کی قسمت ہی بدل گئی۔ مگر بعد میں 16ویں صدی کے اوائل میں Shirvan کی سلطنت کو صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل نے فتح کر لیا۔ جب شاہ اسماعیل نے Shirvans کو مکمل شکست فاش دی تو اس نے Derbend بھی نہ چھوڑا اور یہ عظیم تاریخی شہر بھی اسی کے قبضے میں چلا گیا۔

٭ آگے کی کہانی: Derbend ایرانیوں کے قبضے میں رہا، مگر اسی دوران یہ وقفے وقفے سے عثمانی ترکوں کے قبضے میں بھی جاتا رہا  جیسے 1583ء میں  Battle of Torches کے بعد جب استنبول کا معاہدہ ہوا، پھر اس وقت بھی جب روسیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا   اور ایرانیوں نے Dagestan پر بھی قبضہ کیا۔  روسیوں نے 1722-23ء کی مہم جوئی کے بعد 1735ء کا معاہدہ کیا تھا جو Treaty of Ganja کہلاتا ہے۔  یہ معاہدہ شاہی روس اور Safavid Iran کے درمیان کیا گیا تھا۔ اس کے تحت روس کو  Derbent کا شہر ایران کو واپس دینا پڑا۔  پھر 1747ء میں  Derbent  کا شہر Derbent Khanate کا دارالحکومت بن گیا۔ 1796میں فارسی مہم جوئی کے دوان Derbent پر روسیوں نے General Rayon Valley zubu کی قیادت میں دھاوا بول دیا، مگر انہیں اندروانی سیاسی مسائل کے باعث پسپا ہونا پڑا جس کے نتیجے میں یہ شہر ایک بار پھر فارسیوں کے پاس چلا گیا۔

٭Derbent  کی آبادی: 1886ء میں Derbent میں  کل آبادی  میں اکثریت روسیوں کی تھی جو مجموعی آبادی کا 58,9% تھے۔ ایرانی نسل کے لوگوں کی تعداد  8,994 تھی یعنی یہ لوگ اس شہر میں دوسرے نمبر پر تھے۔

٭ محل وقوع اور جغرافیہ: جدید Derbent شہر بحیرہ کیسپئن کے مغربی کناروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے جنوب میں  Tabasaren پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر دریائے روباس بہتا ہے۔  آج کے اس جدید شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ   Derbent شہر کی اپنی بندرگاہ بھی ہے۔ ریلوے کا نظام بھی ہے جس کے تحت جنوب میں باکو تک ٹرینیں چلتی ہیں اور باکو سے بہ ذریعہ سڑک روستوف بھی جایا جا سکتا ہے۔  اس شہر یعنی Derbent کے شمال میں ایک بے مثال یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے جسے Kirk-lar کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ یادگار اصل میں 40 ہیروز کی یاد میں بنائی گئی ہے جنہوں نے 728ء میں عربوں کی یلغار کے خلاف Dagestan کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ یہاں آنے والے لوگ اور سیاح اس یادگار پر جاتے ہیں اور ان ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔Derbent  کے جنوب میں 50 میل طویل Caucasian wall  ہے جو سمندری ہوائوں اور اس کے غیر معمولی طوفانوں کی شدت سے تحفظ کے لیے بنائی گئی ہے۔  اسے دیوار سکندر بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے Caspian Sea کے فولادی دروازوں کے ساتھ تنگ آب نائے کو بند کر رکھا ہے۔ جب یہ دیوار صحیح سلامت تھی تو اس کی بلندی 9  میٹر یا 29 فیٹ تھی اور اس کی موٹائی لگ بھگ 3 میٹر یا 10 فیٹ تھی۔ اس کے فولادی دروازے ہیں اور دیوار پر متعدد واچ ٹاورز بھی بنے ہوئے ہیں جو ایران کی سرحد سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

٭ کاروبار اور تجارت: Derbent کا شہر تجارت اور کاروبار کا ایک بڑا عالمی مرکز ہے جس کے رابطے دنیا بھر کے اہم ملکوں اور تاریخی شہروں سے بھی ہیں۔ اس شہر بے مثال میں ہر طرح کی ضرورت کی مشینیں بھی بنائی جاتی ہیں، خوراک، ٹیکسٹائل، ماہی گیری اور متعدد تعمیراتی مواد کی فراہمی بھی اسی تاریخی شہر سے کی جاتی ہے۔  یہاں پارچہ بافی بھی ہوتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہاں کا بنایا ہوا کپڑا کافی پسند کیا جاتا ہے۔یہاں کی وڈ انڈسٹری یعنی لکڑی کی صنعت بھی بہت مشہور ہے۔ اس شہر کی لکڑی کو بہت پسند کیا جاتا ہے، اس میں بڑی عمدہ قسم کی اور نایاب لکڑی شامل ہے جن کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے مکانات بہت عمدہ اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ان متذکرہ بالا اشیا کے علاوہ اس شہر کی ایک اور speciality بھی ہے، وہ یہ کہ یہ شہر روسی برانڈی کی تیاری کا ایک بڑا مرکز بھی ہے۔  یہاں کا تعلیمی نظام بھی اچھا خاصا ہے۔ اس شہر میں ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے  اور اس کے ساتھ ساتھ متعدد ٹیکنیکل اسکول بھی شامل ہیں  یہاں کے بچے اور بچیاں عمدہ تعلیم حاصل کر کے دنیا بھر کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت خوش مزاج  ہوتے ہیں، دوسروں کی مدد کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کا بھرپور استقبال کرتے ہیں، ان کی ہر طرح سے میزبانی بھی کرتے ہیں۔ مہمانوں کو اپنے لیے خوشی اور خوش حالی کا سبب سمجھتے ہیں۔ Derbent میں ایک بہت بڑا میوزیم ہے اور اس کے شاندار اور حسین پہاڑ بھی بے مثال اور قابل دید ہیں،  اس شہر کے ساحلوں کا کوئی جواب نہیں ہے، شاید اسی لیے یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے  اور وہ بھی اس شہر کو دیکھنے اور اس کے ماضی کی کہانیوں کے بارے میں جاننے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply