مصر: اپوزیشن رہنمائوں کے خاندان حکومتی نشانے پر

ریٹائرڈ آرمی جنرل سامی عنان اس وقت فوج کے زیر حراست ہیں

ریٹائرڈ آرمی جنرل سامی عنان اس وقت فوج کے زیر حراست ہیں

قاہرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

مصر میں حزب اختلاف کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کے بعد ان کے اہلخانہ بھی فوجی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ الجزیرہ کے ویب پورٹل پر بدھ کے روز شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق Muslim Brotherhood کے برسوں سے زیر حراست نائب Khairat el-Shater کی بیٹی  Samia کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ Samia Khairat el-Shater جمعہ Ain Shams میں تدریسی فرائض انجام دے رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 20 سال درس و تدریس کرتے ہوئے جامعہ Ain Shams میں گزارے۔ وہ اپنے تعلیمی دور میں لائق ترین طالبہ تھیں اور تدریس کے شعبے میں بھی ہمیشہ نمایاں رہیں۔ تاہم ان کے اسی جامعہ کی انتظامیہ نے محض ایک فوج کال کے ذریعے انہیں صرف اتنا بتایا کہ ان کی ملازمت ختم کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ نے اس کی وجہ بتانا بھی گوارا نہیں کی۔ Samia Khairat el-Shater نے انتظامیہ کے اس فیصلے پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔  اس سے قبل محکمہ انسداد بدعنوانی کے سابق سربراہ Hisham Genena کی بیٹی کو ایک انتظامی عہدے اور سابق وزیر اوقاف Talaat Afifi کے بیٹے محمد کو مسجد کی امامت سے فارغ کیا جا چکا ہے۔  اسی طرح معزول صدر Mohamed Morsi اور Muslim Brotherhood کے مکتب ارشاد کے رکن Abdulrahman Albar کی بیٹی کو جامعات سے نکالا جا چکا ہے۔ جبکہ زیر حراست سابق چیف آف اسٹاف جنرل ریٹائرڈ Sami Anan کے بیٹے Samir کو یہ الزام لگا کر گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کی جگہ صدارتی انتخاب لڑنے کی سوچ رہا ہے۔ واضح رہے کہ Hisham Genena اور Sami Anan اس وقت زیر حراست ہیں۔ مصری فوج نے Hisham Genena اور Sami Anan کے خلاف ریاستی راز فاش کرنے کے الزام میں کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ ریٹائرڈ آرمی جنرل سامی عنان اس وقت فوج کے زیر حراست ہیں اور ہشام جنینہ ان کی مختصر صدارتی مہم کے دوران میں پیش پیش رہے تھے۔ ان کی صدارتی مہم چند روزہ ہی ثابت ہوئی اور فوج نے انہیں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روک کر گرفتار کر لیا تھا۔ دوسری جانب Sami Anan کے وکیل Nasser Amin نے اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کیے گئے  ایک بیان میں Sami Anan پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔

No comments.

Leave a Reply