پاکستان: ڈالر بے قابو کیوں؟

انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 110 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 115 روپے ہو گئی

انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 110 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 115 روپے ہو گئی

نیوز ٹائم

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں گزشتہ روز محض چند گھنٹوں کے اندر تقریباً 5 روپے کا یک دم اضافہ  جس کے باعث ملکی تاریخ میں ڈالر 115 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، محض حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کی پوری سیاسی قیادت، ریاستی اداروں اور پوری قوم کے لیے نہایت سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے۔  اخباری رپورٹوں کے مطابق روپے کی قیمت میں شدید مندی کے بعد کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خرید و فروخت بند کر دی۔ ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم کم و بیش 89 ارب ڈالر ہے جو ڈالر کی قدر میں حالیہ ریکارڈ اضافے کے باعث صرف ایک روز میں 800 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔  ڈالر کی قدر میں اس اضافے کے باعث ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان متوقع ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ تقریباً یقینی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے اس منفی صورت حال کا سبب جاری کھاتے کے خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کو بتایا ہے  جبکہ بیرونی زرمبادلہ کے ڈیلروں اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے ظاہر کئے بغیر روپے کی سپورٹ ختم کر کے اس کی قدر کم کر دی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ادائیگیوں کے دبائو میں توازن لانے کیلئے گزشتہ سال دسمبر میں بھی اسی طرح روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق ڈالر مافیا نے صرف ایک گھنٹے کے اندر ڈالر کی قیمت بڑھا کر اربوں روپے کما لئے

منگل کو اچانک روپے کی قدر میں 4 روپے 40 پیسے کی زبردست کمی ہوئی، جس کے باعث انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 110 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 115 روپے ہو گئی، جبکہ اس دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 111 روپے 50 پیسے سے بڑھ کر 114 روپے 50 پیسے ہو گئی،  مارکیٹ کے آغاز سے ڈالر کی قیمت میں تیزی کا رجحان سامنے آیا اور صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر ڈالر کی قیمت میں 4 روپے 40 پیسے تک کا اضافہ ہو گیا  اور اس دوران ایک وقت پر 116 روپے 25 پیسے تک پہنچ گیا، جس کے بعد اسٹیٹ بینک نے فوری طور پر بینکوں کو ڈالر کی خرید و فروخت کی قیمت کو مستحکم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ کسی بڑی ڈالر مافیا کی منصوبہ بندی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ اس ضمن میں جاری کردہ اسٹیٹ بینک کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے  کہ جولائی تا فروری مالی سال 18 کے دوران برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات نے بالترتیب 12.2 فیصد اور 3.4 فیصد کی اچھی نمو دکھائی  جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران اِن میں کمی دیکھی گئی تھی، تاہم بیرونی توازنِ ادائیگی کی صورتِ حال بھاری درآمدی بل کی بنا پر دبائو میں ہے،  ملک کو ہفتہ وار 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی پڑ رہی ہیں جس کی بنا پر جاری حسابات کا خسارہ بڑھا اور زرِمبادلہ کی طلب اور رسد کا فرق پیدا ہوا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق شرحِ مبادلہ میں یہ ایڈجسٹمنٹ بیرونی شعبے میں ارتقا پذیر بنیادی حقائق کے ساتھ بڑی حد تک ہم آہنگ ہے اور اس کی جانب سے زرِمبادلہ مارکیٹوں کی محتاط نگرانی کی جاتی رہے گی۔ یہ وضاحتیں کتنی اطمینان بخش ہیں اور کتنی نہیں اس سے قطع نظر 2008 ء  کے بعد روپے کی قدر کا ایک بار پھر ملکی تاریخ میں پست ترین سطح پر آ جانا کروڑوں پاکستانیوں کے شب و روز کی تلخیوں میں بہرحال بے پناہ اضافے کا سبب بنے گا اور خصوصی انتظامات نہ کیے گئے تو عوام کو مہنگائی کے منہ زور سیلاب کا سامنا کرنا ہو گا جبکہ ماہرین اور فاریکس ڈیلرز یہ شبہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی اس نشان دہی کے مطابق کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اس کی قدر کی صحیح عکاسی نہیں کرتی آنے والے دنوں میں اسے 120 سے 125 روپے تک لے جانا ہو گا۔

اسٹیٹ بینک کے تجزیے میں اگرچہ ملک میں جاری سیاسی کھینچا تانی اور بعض عدالتی فیصلوں کے باعث جنم لینے والی افرتفری کو معاشی صورت حال میں رونما ہونے والی ابتری کے اسباب میں شمار نہیں کیا گیا ہے  لیکن موجودہ حالات میں ان عوامل کا بھی یقیناً بڑا کردار ہے۔ حالات کو ازسرنو بہتر بنانے کے لیے سیاسی رہنمائوں اور ریاستی اداروں سب کا مل بیٹھنا اور درپیش چیلنجوں کو مشترکہ طور پر حل تلاش کرنا قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے۔

No comments.

Leave a Reply