سال 1968 ء کو تاریخ کا سیاہ ترین سال

امریکا اور ویتنام کے درمیان طویل جنگ کا آغاز1968  میں ہوا تھا جس کا اختتام 1975ء میں ہوا

امریکا اور ویتنام کے درمیان طویل جنگ کا آغاز1968 میں ہوا تھا جس کا اختتام 1975ء میں ہوا

نیوز ٹائم

اگر آج سے 50 سال پہلے کی دنیا پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو ویتنام سے شکست کا سامنا ہوا، چیکو سلواکیہ میں ماسکو کو ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ برلن، پیرس اور میکسیکو میں طلبا تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔  یہ ذکر ہو رہا ہے سال 1968 ء کا جس پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔

ویتنام، امریکا کا بیک ڈائون:

سال 1968ء میں ویتنام کے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی ہزاروں کی تعداد میں کمیونسٹ فورسز نے ویتنام کے شمالی حصے میں حملہ کر دیا تھا  جس سے کئی علاقے متاثر ہوئے ان میں Saigon اور Ho Chi Minh بھی شامل تھے۔

ایڈورٹائیزمینٹ:

یہ امریکا اور ویتنام کے درمیان طویل جنگ کا آغاز تھا جس کا اختتام 1975ء میں ہوا۔ اس کے بعد کمیونسٹ فورسز نے یہاں کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا اور امریکی اور اتحادی افواج ویتنام میں ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے واپس لوٹ آئیں۔ 30 اپریل 1975ء کو شمالی ویتنام کے ٹینک جنوبی ویتنام کے دارالحکومت Saigon میں داخل ہو گئے تھے۔  اور نہ صرف داخل ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے وہاں قبضہ بھی کر لیا تھا جس کے بعد اس شہر کا نام تبدیل کر کے Ho Chi Minh City رکھ دیا گیا تھا۔6 ویں امریکی صدر Lyndon B. Johnson کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مشاورتی مشن کو عملی جنگ میں دھکیل دیا تھا۔  ایک وقت ایسا بھی تھا جب امریکا کے 500000 فوجی ویتنام میں تعینات کیے گئے تھے۔

نوجوانوں کی بغاوت:

امریکا اور ویتنام کے درمیان عرصہ دراز سے جاری جنگ سے تنگ آ کر نوجوانوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت شروع کر دی تھی۔ امریکا اور یورپ کی یونیورسٹی میں نوجوانوں نے یو ایس، گو ہوم کے نعرے بلند کر دیے تھے۔ اس نعرے نے آتے ہی پورے امریکا میں کھلبلی مچا دی تھی۔ یونیورسٹی کے بعد نوجوان دنیا بھر کی سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے ان کا مقصد یہی تھا کہ ویتنام سے جاری اس جنگ کا خاتمہ، جنسی آزادی، خواتین کے حقوق اور ماحولیات کی حفاظت کرنا تھا۔ 50 سال پہلے کی دنیا کیسی تھی؟ جرمنی میں، ایک انقلابی بائیں بازو کے طالب علم رہنما Rady Dachich کے خلاف اپریل میں کی جانے والی قتل کی سازش کے سبب متعدد جرمن شہروں میں بدامنی پھیل گئی۔ فرانس میں، 10 مئی کی رات طالب علموںکا پولیس سے لڑائی کا واقع پیش آیا،  اس کے دو دن بعد ہزاروں کارکن بھی طلبا کے احتجاج میں شامل ہو گئے اور کچھ ہفتوں کے لیے ملک کو تقسیم کر دیا گیا۔ فرانسیسی صدر Charles de Gaulle نے 30 مئی کو نیشنل اسمبلی تحلیل کر دی  اور پھر جون میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئی۔ ان ممالک کے علاوہ اٹلی، ترکی اور جاپان میں بھی ان تحریکوں کی آواز گونجنے لگی۔ میکسیکو میں اولمپک کھیلوں سے قبل پولیس نے اچانک طلبا پر دھاوا بول دیا جس کے باعث 33 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ وہاں موجود غیر ملکیوں کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں 33 نہیں بلکہ 200 سے 300 افراد مارے گئے تھے۔

قتل عام:

سال 1968 ء کو تاریخ کا سیاہ ترین سال کہا جانے لگا کیونکہ اس سال ہزاروں بے گناہ افراد کا کھلے عام قتل ہوا۔ اسی سال 4 اپریل کو نوبل انعام یافتہ Martin Luther King کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ صدر Johnson نے Martin Luther King کی جانب سے بنایا گیا آخری قانون جو کہ شہریوں کے حقوق پر تھا، اس پر دستخط کر دیے۔ 50  سال 5 جون کو سابق امریکی سینیٹر Robert F. Kennedy کا بھی قتل ہوا جس میں فلسطینی تارکین وطن ملوث تھے۔بغاوت کے بادل چیکوسلواکیہ تک جا پہنچے جہاں Alexander Dubusk وہاں کی رولنگ پارٹی کے سربراہ بن گئے اور ساتھ ہی ان کا مقصد لوگوں میں سوشلزم ود ہیومن فیس متعاوف کرانا تھا۔

Biafra کی تباہی:

اسی سال Biafra میں بھی تباہی کے آثار نمایاں ہونے لگے، بھوک سے مرتے لوگوں کی تصویریں وائرل ہونے لگیں  جس کے بعد لوگوں میں انسانیت کا جذبہ بیدار ہوا اور وہاں سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر ڈاکٹرز کو بلایا گیا جنہوں نے بے لوث خدمات انجام دیں۔  30مہینے تک جاری رہنے والے اس تنازع سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ صرف بھوک کے سبب مارے گئے۔

No comments.

Leave a Reply