الیکشن جیتنے کے لیے مصری صدر کی اوچھے ہتھکنڈے جاری

میں پولنگ 26 سے  28 مارچ تک ہو گی

میں پولنگ 26 سے 28 مارچ تک ہو گی

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

مصر میں اس بار بھی  2014ء کی طرح انتخابات کے نام پر دھونگ رچایا جا رہا ہے۔ صدر Abdel Fattah El-Sisi نے اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے مقابلے میں آنے والے تمام امیدواروں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔ انتخابی ڈرامہ بازی کے لیے Abdel Fattah El-Sisi نے اپنے دیرینہ دوست Mousa Mostafa Mousa کو خانہ پری کے لیے اپنے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔  جبکہ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے ان نام نہاد انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔

بی بی سی عربی کی رپورٹ کے مطابق مصر صدر Abdel Fattah El-Sisi کی مدت اقتدار رواں برس 17 جون کو ختم ہو رہی ہے۔ اب نئے انتخابات کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ 16 مارچ کو شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں بیرون ممالک میں مقیم مصری باشندے ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں۔ مصر میں پولنگ 26 سے  28 مارچ تک ہو گی۔ یہ مصری تاریخ کے چوتھے اور 25  جنوری 2011ء کے انقلاب میں Hosni Mubarak کا تختہ الٹنے کے بعد تیسرے صدارتی انتخابات ہیں۔ سرکاری اعلان کے مطابق امیدواروں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 20 جنوری مقرر کی گئی۔ پھر انتخابات 8 فروری سے 8 مئی کے درمیان ہونا طے پائے تھے۔ مگر ایک دلچسپ اور ڈرامائی صورت حال کے پیش نظر الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ 16 مارچ تک موخر کرنا پڑی۔ ہوا کچھ یوں کہ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد متعدد افراد نے Abdel Fattah El-Sisi کے مقابلے میں میدان آنے کا اعلان کیا۔ ان میں کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جس سے Abdel Fattah El-Sisi کو خطرہ محسوس ہوا تو ان کا وہ حشر کیا گیا کہ وہ آئندہ جمہوریت کا نام لینے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ جب سارے امیدواروں کو دستبردار کرایا گیا اور کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ بھی گزرنے لگی تو اس میں 10  روز کا اضافہ کیا گیا۔ پھر 29  جنوری کو Abdel Fattah El-Sisi نے اپنے دیرنہ دوست اور سکیولر سیاستدان Moussa Mostafa Moussa سے کاغذات جمع کروائے۔ Ghad Party head Moussa Mostafa Moussa کے ہیں۔ ملکی معیشت کو تباہی کے کنارے پر پہنچانے والے سیسی کو تخت سے اتارنے کے لیے کئی اہم سخصیات گزشتہ برس سے ہی الیکشن لرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ ان میں مصری فوج کے سابق سربراہ General Sami Hafez Anan بھی شامل تھے۔

2005ء سے 2012ء تک فوجی سربراہ رہنے والے General Sami Hafez Anan نے 20 جنوری کو اپنے کاغذات جمع کرائے۔ انہیں سیاسی جماعت Hizb Egypt al-Ayurveda نے نامزد کیا تھا۔ مگر 23 جنوری کو فوج کی سپریم کونسل نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ کونسل کے الامیے میں کہا گیا تھا کہ جنرل عنان فوج کی اعلیٰ کمان سے اجازت لئے بغیر میدان سیاست میں کود پڑے، جو بغاوت کی ایک شکل ہے۔ فوج کے وقار کو تقاضہ ہے کہ اس سنگیں واردات کی اعلی سطحی تحقیقات کی جائے۔ عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہے، جبکہ یہاں تو باقاعدہ ہتھکڑی  لگی ہوئی تھی،  چنانچہ General Annan انتخابات میں جنرل Al-Sisi کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مقابلے سے دستبردار ہو گئے۔ مصر کے نامور سائنسدان ڈاکٹر Essam Heggy نے بھی انتخابات  میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ Essam Heggy امریکہ میں مقیم اور ناسا سے وابستہ ہیں۔ مگر ان کے کاغذات قانونی تقاضوں پر پورا نہ اترنے کا جواز بنا کر مسترد کر دیئے گئے۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی کے Phd. Ahmad Tansora کا شمار بھی مصر کی معروف اعلیٰ شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہں نے بھی Al-Sisi کا مقابلہ کرنے کی غلطی کی تو انہیں گرفتار کر کے 6 برس کے لیے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ مصر کے ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کی مصری تنظیم کے سابق سربراہ Khalid Ali کا خیال تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اظہار رائے پر پابندی، جماعت سازی  پر قدغن اور سیاسی سرگرمیوں  پر بندش ہے،  جس نے مصریوں کو ریاستی معاملات سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ عام لوگ قانونی سازی اور حکمرانی کے ایوانوں تک پہنچیں اور اسی عزم کے ساتھ انہوں نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔ انہیں بڑی سیاسی جماعت Hezb Al-Dastor نے نامزد کیا تھا۔ Bukka  Hamad Bin sahi (2014ء میں Abdel Fattah al-Sisi کے مقابل واحد صدارتی امیدوار) اور Masoum Marzouk بھی Khalid Ali کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔ ان دونوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ Khalid Ali کے پاس بھی خفیہ پولیس کے چند اہلکار پہنچے اور 24 جنوری کو وہ یہ کہتے ہوئے دستبردار ہو گئے کہ فی الوقت وہ وکالت پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ مصر کے سابق آڈیٹر جنرل  Hisham Muhammad Zaki Barakat نے اس سال جنوری میں جیسے ہی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا،  خوربرد کے علاوہ سرکاری خزانے سے Muslim Brotherhood کی مدد کا الزام لگا کر Hisham کی گرفتاری کے وارنٹ نکال دیئے گئے۔ بے چارے نے کئی دن زیر زمین رہنے کے بعد  27 جنوری کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا منصوبہ بنایا، س کی ان کے قریبی رفقا کے علاوہ کسی کو خبر نہ تھی۔ موصوف جیسے ہی اپنے گھر سے نکلے، گلی کے نکر پر ایک کار نے ان کی گاڑی کا راستہ روک لیا۔ جس سے اترنے والے تین افراد نے سلاخوں سے ہشام کی مرمت شروع کر دی۔ خاصی پٹائی کے بعد حملہ آور چلے گئے اور پولیس Hisham کو ہسپتال لے جانے کے بجائے تھانے لے گئی کہ ان کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے۔ کافی دیر تک انہیں تھانے میں رکھا گیا، جہاں وہ درد سے تڑپتے رہے۔ جب Hisham کے سر سے Al-Sisi کی مخالفت اور انتخاب میں حصہ لینے کا بخار اتر گیا تو انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔

ایک اور مضبوط امیدوار Air Marshal Ahmad Mohammad Shafiq Zaki تھے، جو مصری فضائیہ کے سابق سربراہ اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 2012ء میں مصری تاریخ کے واحد آزادنہ انتخابات میں لبرل، سیکولر و قوم پرست اتحاد کی جانب سے صدر Mohamed Morsi کا مقابلہ کیا تھا۔ Air Marshal Ahmad Mohammad Shafiq Zaki دبئی میں تھے جہاں سے انہوں نے Al-Sisi کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ ٹوئٹ جاری ہوتے ہی متحدہ عرب امارات کی پولیس ان کے گھر پہنچ گئی اور انہیں ملک بدری کے احکامات دکھا کر خصوصی طیارے میں قاہرہ بھیج دیا گیا۔ قاہرہ کے ہوائی اڈے پر فوج کا خصوصی دستہ ان کے استقبال کو موجود تھا۔ Air Marshal Ahmad Mohammad Shafiq Zaki کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ایک ہوٹل میں پہنچا دیا گیا  اور چند دن بعد 7  جنوری کو ہوٹل میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے جنرل Al-Sisi کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔

مصری قومی اسمبلی کے رکن اور سابق صدر Muhammad Anwar el-Sadat  کے بھتیجے Muhammad Anwar el-Sadat Thani کا خیال تھا کہ خاندانی پس منظر کی بنا پر جنرل Al-Sisi انہیں کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ Muhammad Anwar el-Sadat Thani کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہ ثابت ہوئی کہ ان کی نہ تو ٹانگیں توڑی گئیں، نہ کسی قسم کا تشدد ہوا،  بس مہمان کی شکل میں گھر آنے والے خفیہ پولیس کے سپاہوں نے انتخاب لڑنے کے خطرات و مضمرات سے انہیں آگاہ کر دیا۔ چنانچہ وہ یہ کہہ کر چلے گے کہ موجودہ حالات میں صدر Al-Sisi کی حمایت ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ علاوہ کچھ ایسے افراد بھی سامنے آئے جو غیر سنجیدہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو انہیں بھی نشان عبرت بنایا گیا۔ Egyptian Army Colonel Ahmed Kanosova نے نومبر 2017ء میں فیس بک پر ایک ویڈیو میں صدارتی انتخاب لڑنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ویڈیو منظر عام پر آتے ہی انہیں چھاونی سے گرفتار کر کے فوج کے تفتیشی مرکز پہنچا دیا گیا اور 15 دن خاطر نواضع کے عد وہ اس شان سے فوجی عدالت میں آئے کہ ان کا منہ سوجا ہوا تھا اور دونوں ہاتھوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ انہیں وہیل چیئر پر جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ سماعت کے بعد انہیں 6 سال قید کی سنا دی گئی۔ ان امیدواروں کا حشر دیکھ کر جن لوگوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور ابھی وہ جانچ پڑتال کے مرحلے میں تھے کہ انہوں نے خود ہی اپنے کاغذات واپس لے لئے۔  ان امیدواروں سے جان چھڑانے کے بعد Al-Sisi کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہیں بچا تو آخری تاریخ سے ایک دن پہلے مجبوراً Moses Mostafaکو میدان میں لایا گیا، ان کے کاغذات بھی بغیر کسی جانچ کے قبول کر لئے گئے۔ سیکولر نظریات کے حامل Moses Mostafa کہنے کو صدارتی امیدوار ہیں، مگر وہ مہم اپنے حریف یعنی Al-Sisi کی چلا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر Mohamed Morsi کے خلاف احتجاجی تحریک میں موسیٰ مصطفیٰ سے سے آگے تھے۔ اپنی انتخابای تقریروں میں وہ بائیکاٹ کرنے والوں پر برس رہے ہیں۔ اس انتخابی ڈھونگ میں 2012ء سے اقتدار پر قابض Al-Sisi کی کامیابی یقینی ہو گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود چوکوں، چوراہوں کو انتخابی بینروں بھر دیا گیا ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ Al-Sisi اور Moses Mostafa کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ وائس آف جرمنی (ڈوئچے ویلے) کے مطابق مصر میں انتخابات کے نام پر ہونے والے ڈرامہ بازی پر مغربی ممالک کی خاموشی نہایت تجب خیز ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس خاموشی کے پیچھے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا ہاتھ ہے،  جو Al-Sisi کو ہر حال میں اقتدار پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ Al-Sisi نے بھی خلیجی ممالک سے ملنے والے اربوں ڈالر مغربی ممالک کے بینکوں میں رکھے ہیں۔ اس لئے مصر میں ہونے والے اس انتخابی مذاق پر سب خاموش ہیں۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انتخابات سے پہلے Muslim Brotherhood کے 60 ہزار کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج کیا ہے۔

No comments.

Leave a Reply