فلسطینیوں کی شہربدری کا سیاہ صہیونی قانون “پراور” اب بھی لاگو ہے:الزھار

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مرکزی رہنما  ڈاکٹر محمود الزھار

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مرکزی رہنما ڈاکٹر محمود الزھار

غزہ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے مرکزی رہنما اور پارلیمنٹ کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ  Dr Mahmoud Al-Zahar نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے جزیرہ نما النقب سے فلسطینی باشندوں کے انخلا کے لیے وضع کردہ “پراور” نامی ظالمانہ قانون پرعمل درآمد نہیں رکا ہے، اس سیاہ قانون پراب تک عمل جاری ہے اور نہتے فلسطینیوں کو ان کے گھروں، اراضی اور املاک سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق Dr Mahmoud Al-Zahar نے ان خیالات کا اظہار پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی شہروں سے فلسطینی آبادی کو نکال باہر کرنے کے لیے “پراور” نامی ایک ظالمانہ قانون منظور کرایا جس کی آڑ میں ہزاروں فلسطینی عرب باشندوں کو ان کی آبائی اراضی سے نکال باہر کرنے کی سازش کی گئی۔ عالمی سطح پر اس ظالمانہ قانون پرعمل درآمد کی روک تھام کے لیے مطالبات بھی کیے گئے لیکن بدقسمتی سے عالمی ادارے اسرائیل کو اس قانون پرعمل درآمد سے باز رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران Dr Mahmoud Al-Zahar نے فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ “پراور” قانون سے متاثرہ جزیرہ نما النقب کے اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جبری انخلا کی صہیونی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی باشندوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے  اس لیے انہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے شہر بدر کر رہا ہے۔ ڈاکٹر الزھار نے صہیونی ریاستی جرائم بالخصوص “پراور” قانون کے خلاف فلسطینی شہریوں کے عزم استقامت کی تعریف کی اور کہا کہ صہیونی جس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، فلسطینی عوام نے نہایت صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ ان سازشوں اور مظالم کا مقابلہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل چاہے جتنا زور لگا لے وہ جزیرہ نقب سے فلسطینی عوام کو نکال نہیں سکتا ہے۔ Dr Mahmoud Al-Zahar نے مزید کہا کہ  جزیرہ نما النقب کی اراضی پورے فلسطین کی اراضی کا نصف یعنی گیارہ ملین ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اسرائیل اس اراضی کوللچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور اس پر فوجی طاقت کے ذریعے ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے صہیونی ریاست نے پچھلے سال پارلیمنٹ سے “پراور” نامی ایک قانون بھی منظور کرایا تاکہ فوجی قبضے کو پارلیمانی تحفظ دیا جاسکے۔ دوسری جانب اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی زیر نگرانی مشرقی یروشلم میں چار فلسطینیوں کے گھر گرا دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی پولیس کا دعوی ہے کہ چاروں گھر غیر قانونی اور ناجائز تھے اس لیے گرائے گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق گرائے گئے چار گھروں میں مجموعی طور پر 20 افراد رہائش پذیر تھے۔ ان گرائے گئے گھروں میں دو گھر عیساویا کے علاقے سے متصل بنے تھے اور دو گھر بیت حنینا کے علاقے میں تھے مکان گرانے میں اسرائیلی پولیس کا کردار نمایاں رہا کیونکہ فلسطینیوں کے گھر گرانے لیے لیے اسرائیلی حکومت نے پولیس کو ذمہ داری سونپی تھی۔ گھروں کے مالک فلسطینیوں کو پولیس نے ہی گھروں سے نکال باہر کیا۔ پولیس نے اس سلسلے میں گھر مالکان کو وارنٹ کی صورت میں احکامات جاری کیے کہ ان کے گھر قانون کی نظر میں جائز نہیں ہیں اس لیے گرائے جا رہے ہیں۔ اس بارے میں پولیس کی ترجمان نے کہا کہ گھروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے گرا دیا گیا ہے اور اس دوران کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔ پولیس ترجمان نے مزید کہا کہ ان گھروں کے مالک فلسطینیوں کے پاس اسرائیلی حکام کا جاری کردہ اجازت نامہ نہیں تھا۔ مقبوضہ یروشلم کے فلسطینی گورنر عدنان الحسینی نے فلسطینی سرکاری ریڈیو وائس آف فلسطین سے گفتگو کے دوران بتایا کہ اسرائیلی حکام نے یہ گھر صرف اس لیے گرا دیے ہیں کہ اسرائیل عرب آبادی سے بسائے گئے یہودیوں کو دور رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ مشرقی یروشلم میں فلسطینی آبادی ہے۔ گورنر نے اس موقع پر سپریم کورٹ سے ہائی وے کی تعمیر کے خلاف درخواست کے مسترد ہونے کا بھی ذکر کیا، اس ہائی وے کو فلسطینی قصبے بیت صفا سے گزار کر یہودی بستیوں کے ساتھ ملایا جانا تھا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کے امور کے ادارے او سی ایچ اے کے مطابق اسرائیل نے 2013ء کے دوران مجموعی طور اسی نوعیت کی 99 عمارات کو گرایا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ واضح رہے کہ مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اس میں موجود فلسطینیوں کو بھی اس سے نکالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

No comments.

Leave a Reply