مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد سے جمہوری نظام کمزور

مسلم لیگ ن کے نواز شریف ، تحریک انصاف کے عمران خان اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری

مسلم لیگ ن کے نواز شریف ، تحریک انصاف کے عمران خان اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری

نیوز ٹائم

 تینوں میں کوئی فرق نہیں اس کالم میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد سے جمہوری نظام کمزور ہو رہا ہے، تینوں جماعتوں میں اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت نہیں لیکن تینوں میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہیں اور اگر آپ ایک پر تنقید کریں تو وہ آپ کو دوسرے کا زرخرید قرار دے دیتے ہیں۔ اس کالم میں یہ بھی کہا گیا کہ جو کچھ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ہو چکا،  وہ دنیا نے دیکھ لیا کہیں تیسرے کا انجام بھی انہی دونوں جیسا نہ ہو۔ اس کالم کے شائع ہونے پر  این اے 120 میں ووٹروں کے نظریاتی رجحانات پر تحقیق کر رہا ہے ، اور اسے یہ جان کر حیرت ہوئی ہے کہ پاکستان کے دل لاہور میں قومی اسمبلی کے اس حلقے کے اکثر ووٹروں کو اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے نظریے کا کچھ علم نہیں،  وہ یا تو کسی کی نفرت اور محبت کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں یا اسے ووٹ دیتے ہیں جو ان کے گلی، محلے کے مسائل حل کرتا ہے  اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو پیسے لے کر ووٹ دیں گے۔  ہمارے دوست کی یہ تحقیق ایک خالص تدریسی سرگرمی تھی لہذا لوگوں نے ان کے ساتھ کھل کر بات کی۔  پروفیسر صاحب نے این اے 120 کے ایک ایسے خاندان سے بھی ملاقات کی جس کے تین افراد نے مسلم لیگ (ن)، ایک نے تحریک ِ انصاف اور ایک نے پیپلز پارٹی کو ووٹ بیچا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ووٹ کیوں بیچتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بڑی جماعتیں پیسے والوں کو اپنا ٹکٹ دیتی ہیں  تاکہ وہ حکومت میں آ کر مزید پیسہ بنائیں،  تو پھر ہم پیسے کیوں نہ کمائیں؟ ہمارے پروفیسر دوست کا خیال تھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جمہوریت کو مضبوط نہ کیا  اور نظریاتی لوگوں کو اہمیت نہ دی تو اگلے چند سال میں یہ جماعتیں مزید کمزور ہو جائیں گی اور ان کی جگہ نئی جماعتیں آ جائیں گی۔  میں نے پوچھا کہ کیا ہر طرف Pak Sarzameen Party چھا جائے گی؟ تو دوست نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹیوں کا انجام مسلم لیگ (ق) سے مختلف نہیں ہو سکتا  لیکن بڑی جماعتوں کے کمزور ہونے سے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتیں مضبوط ہوں گی۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے میں ریاستی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔

نیشنل عوامی پارٹی پر Zulfiqar Ali Bhuttoے دور میں پابندی لگائی گئی۔ جنرل Zia-ul-Haq نے پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ ان غیر جماعتی انتخابات کے بطن سے سے Mohammad Khan Junejo نے ایک نئی مسلم لیگ پیدا کر لی لیکن جنرل Zia-ul-Haq کو یہ مسلم لیگ بھی نہ اچھی لگی اور انہوں نے Mohammad Khan Junejo حکومت برطرف کر کے مسلم لیگ (ن) کے قیام کی راہ ہموار کی۔ جب مسلم لیگ (ن) سے دل بھر گیا تو General Pervez Musharraf نے مسلم لیگ (ق) بنا ڈالی اور اب ن اور ق لیگ میں سے ایک اور جماعت نکال کر کوئٹہ میں کھڑی کر دی گئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس نئی کنگز پارٹی کا مقام وہی ہو گا جو 1990 ء میں ن لیگ اور 2002ء میں ق لیگ کا تھا۔ اسی قسم کا ایک انقلاب بہت جلد پنجاب میں بھی آنے والا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اندر بے چینی عروج پر ہے۔  پچھلے چند ماہ میں نواز شریف کے ہم نوائوں نے قوم پر ایک نئے مزاحمتی بیانیے کی دھاک بٹھائی اوردعوے کئے کہ نواز شریف کا بیانیہ ایک انقلاب کی نوید بن چکا ہے۔ یہ بیانیہ دراصل پاکستان کی فوج اور عدلیہ پر مختلف نوعیت کے الزامات پر مشتمل تھا۔ جب بھی کسی نے نواز شریف کو یاد دلایا کہ ماضی میں آپ خود بھی فوج اور عدلیہ کے ساتھ مل کر جمہوریت کے خلاف سازش کرتے رہے ہیں،  تو نواز شریف کے حامیوں نے ایسے گستاخوں کو انتہائی غلیظ گالیوں سے نوازا اور ثابت کیا کہ وہ گالی گلوچ میں تحریکِ انصاف والوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

افسوس کہ اس گالی گلوچ بریگیڈ کی قیادت ایک خاتون کے پاس ہے۔ جس کسی نے بھی خاتون سے گزارش کی کہ سیاسی بیانیہ سازشی مفروضوں کے بجائے ٹھوس سیاسی حکمتِ عملی کو سامنے رکھ کر بنایا جائے تو اسے بوٹ پالشیا اور بابا رحمتے کا وظیفہ خوار قرار دیا گیا۔ جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا پر یہ کہا کہ انہوں نے اپنے وزرا کو ہدایت کی ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی نہ کریں تو ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ پھر اسی شریف آدمی کو قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہنا پڑا کہ ہم ایوان میں ججوں کا کنڈکٹ زیربحث لائیں گے۔ ایک طرف ججوں پر الزامات لگائے جا رہے تھے، دوسری طرف اعلی فوجی افسران سے رابطے کئے جا رہے تھے۔ جب فوجی قیادت نے واضح کر دیا کہ وہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے،  تو پھر شاہد خاقان عباسی کو چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا گیا۔ اس ملاقات کے بارے میں سپریم کورٹ کا اعلامیہ سامنے آ چکا ہے لیکن ایک اعلامیہ وہ ہے جو آپ کو صرف اور صرف اس ملاقات کے بارے میں عام لوگوں کی مسکراہٹوں میں نظر آئے گا۔ ان مسکراہٹوں کے پیچھے آپ کو ایک بہت بڑے بیانیے کی عمارت زمین بوس ہوتی نظر آئے گی  کیونکہ اس عمارت کی بنیادیں نظریاتی طور پر بہت کمزور تھیں۔ نظریاتی لوگ صبح صبح ججوں کو سازشی مہرے قرار دے کر شام کو اپنا بندہ ان سے ملاقات کے لئے نہیں بھیجتے۔  اس ملاقات کی ٹائمنگ نے اسے غیر معمولی بنا دیا ہے لیکن اس غیر معمولی ملاقات کے نتیجے میں کوئی سیز فائر ہو جائے تو یہ خوش آئند ہو گا۔ اس ملاقات نے شہباز شریف کو صحیح اور نواز شریف کو غلط ثابت کیا۔ اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی ناکام ہو چکی اب اگر نواز شریف اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ میموگیٹ اسکینڈل میں پیپلز پارٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست گزار بننا غلطی تھی۔

انہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ جنرل راحیل شریف کی ناراضگی کے خوف سے 2015ء میں آصف زرداری کے ساتھ لنچ منسوخ کرنا بھی غلط تھا۔ مشرف کو پاکستان سے فرار کرانا بھی غلطی تھی، نیوز لیکس میں پرویز رشید اور طارق فاطمی کو ان کے عہدوں سے ہٹانا بھی غلطی تھی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو بھی اعتراف کر لینا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا راستہ روکنے کیلئے صادق سنجرانی کی حمایت ایک غلطی تھی اور عمران خان بھی مانیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی بیماری کے نامزد امیدوار برائے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دے کر انہوں نے یوٹرن لیا۔ عمران خان پاور پالیٹکس کر رہے ہیں، زرداری اور نواز شریف بھی یہی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نظریاتی نہیں لیکن سب کو نظریاتی کہلوانے کا شوق ہے۔  زرداری اور عمران کو چاہئے کہ کم از کم نواز شریف کو اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت کی حمایت کریں  تاکہ ہم یہ تو کہہ سکیں کہ ہمارے دوست نظریاتی نہ سہی انسانیت نواز ضرور ہیں۔

No comments.

Leave a Reply