وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات، نواز شریف کا بیانیہ

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فیصلہ کیا کہ وہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کر کے ایگزیکٹو کو جو مشکلات اور رکاوٹیں بہت سے عدالتی اقدامات کی وجہ سے درپیش ہیں، سے آگاہ کریں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے اپنا کیس چیف جسٹس کے سامنے رکھا۔ اہم ریاستی اداروں کے درمیان اس طرح کا انٹر ایکشن اچھا اور ضروری ہے تاکہ امور مملکت خوش اسلوبی سے چلیں اور ان میں کسی بھی انسٹی ٹیوشن کی وجہ سے کوئی رکاوٹ نہ آئے۔  دسمبر 2017ء سے شروع ہونے والے تیز رفتار جوڈیشل ایکٹوزم اور نیب کی کارروائیوں نے بڑی حد تک انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیورو کریسی اس بات کو زیادہ ترجیح دے رہی ہے وقت کو دھکا دو اور کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہ کرو تاکہ کوئی پوچھ گچھ ہی نہ ہو۔ یقیناً اس طرح حکومت نہیں چل سکتی اور ملک کیلئے بھی یہ صورتحال قطعاً اچھی نہیں ہے۔ پرفیکٹ تو کوئی ادارہ بھی نہیں۔ اگر ہر ادارہ بجائے اس کے کہ اپنے کام پر زیادہ توجہ دے دوسرے انسٹی ٹیوشنز کے دائرہ اختیار میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو خرابی پیدا ہونی ہی ہے۔ اس وقت 1.8 ملین سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ کوئی ایسی جوڈیشل پالیسی نظر نہیں آ رہی جس سے اس بہت بڑے بوجھ کو کسی طرح بھی کم کیا جا سکے۔ چیف جسٹس خود بھی اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ان کیسز کو جلد نمٹانے کیلئے بار بار کہا ہے مگر وہ مجبور ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ رفتار نہیں پکڑی جا سکی۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی بات  کھل کر جسٹس ثاقب نثار کے سامنے رکھا۔ انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ جہاں بھی ان کی ڈومین میں مشکلات اور رکاوٹیں کسی دوسرے ادارے کی وجہ سے پیدا ہوں وہ اس انسٹی ٹیوشن کے سربراہ کو ان سے آگاہ کریں تاکہ ان کا ازالہ ہو سکے۔ کچھ حضرات نے اپنے بیانات میں کہا کہ وزیر اعظم چیف جسٹس کے پاس اپنے پولیٹکل لیڈر نواز شریف کیلئے رعایت مانگنے گئے تھے اور یہ ملاقات ایک اور این آر او کی تیاری تھی۔  این آر اوز، اس طرح نہیں ہوتے بلکہ اس طرح کی ڈیلز تو خفیہ اور درپردہ ہوتی ہیں جس کی خبر کانوں کان چند لوگوں کو ہوتی ہے عوام کو ان کا علم بڑے عرصے بعد ہوتا ہے۔  اب تک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم نے نواز شریف سے چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اس میٹنگ کے فوراً بعد کچھ جلد باز حضرات نے فوراً یہ کہہ دیا کہ اس سے نواز شریف کے بیانیے کو نقصان ہوا ہے  کیونکہ ایسی ملاقات کے ذریعے سابق وزیر اعظم اپنے کورٹ کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں  اور جو انہوں نے اپنی جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے اس سے یو ٹرن لینا چاہتے ہیں۔  تاہم ان لوگوں کے تجزیے شاہد خاقان عباسی۔ چیف جسٹس ملاقات کے چند گھنٹوں بعد ہی ہوا میں اڑ گئے  جب نواز شریف سے اس میٹنگ کے بارے میں پوچھا گیا۔  بجائے اس کے کہ وہ اس پر کوئی بات کرتے انہوں نے وہی اپنا پرانا بیانیہ زیادہ پرزور طریقے سے دہرا دیا جو وہ 28 جولائی 2017ء  کے بعد دے رہے ہیں۔  ایسی ملاقاتیں ہوں یا نہ ہوں نواز شریف کیلئے اپنے بیانیے سے ہٹنا یا اس میں کوئی بڑی واضح لچک دکھانا سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا خصوصاً اس وقت جبکہ نہ صرف ان کا بلکہ ان کے مخالفین کا بھی یہ ماننا ہے کہ ان کی حکمت عملی کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے جسے وہ لے کر آئندہ انتخابات میں جانا چاہتے ہیں۔ ان کے بیانیے کو اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی رائے کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی Maryam کو ہر صورت سیاست سے مائنس کرنا ہے  سامنے رکھیں تو نظر نہیں آتا کہ ان میں کوئی لچک آئے گی۔  دونوں میں سے جو بھی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹے گا اسے نقصان ہی ہو گا۔  جہاں تک نواز شریف کے پاکستان سے جانے کا تعلق ہے تو یہ این آر او تو بڑا پرانا ہے جو کہ 28 جولائی کے فیصلے کے بعد ہی ان کو پیش کر دیا گیا تھا  کہ وہ ملک سے آئندہ چند سالوں کیلئے چلے جائیں تو ان کے بارے میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

جب بھی وہ لندن اپنی بیگم کی تیمار داری کیلئے گئے بھرپور انداز میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے جو بے بنیاد ثابت ہوا۔ نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے 2000ء کی جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ اس کو اب نہیں دہرائیں گے۔ ویسے بھی جو سیاستدان اتنا مقبول ہو جتنا کہ سابق وزیر اعظم ہیں اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ملک سے چلے جائیں گے احمقانہ بات ہے۔ احتساب عدالت میں چلنے والے ان کے خلاف کیسز کی جو درگت خود جے آئی ٹی کے سربراہ اور نیب کے اسٹار وٹنس واجد ضیاء کی باتوں سے بن رہی ہے کو سامنے رکھتے ہوئے بھی نواز شریف کی رائے یہی ہے کہ انہیں سزا تو ہر صورت ہونی ہی ہے۔ وہ جیل جانے اور اپنے خلاف مقدمات مختلف عدالتوں میں پرزور طریقے سے لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی حالت یہ ہے کہ واجد ضیاء نے اپنی گواہی میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی آف شور کمپنیوں، لندن فلیٹس اور العزیزیہ اسٹیل ملز ملکیت کی کوئی دستاویزات نہیں ملیں اور کسی نے بھی نواز شریف کے ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر ہونے کی کوئی معلومات نہیں دیں،  قطری خط میں بھی ان کا نام نہیں اور گلف اسٹیل مل کی فروخت کی رقم کے لین دین میں وہ شامل نہیں۔ جے آئی ٹی کے ناقابل تردید ثبوتوں اور کارناموں کے بنڈلوں کا بھانڈا خود واجد ضیاء ہی پھوڑ رہے ہیں۔ جب جے آئی ٹی نے کئی ماہ تک تحقیقات کیں اور پھر اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی تو یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ نواز شریف اور ان کی فیملی سے زیادہ کرپٹ دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ مگر جب عدالت میں ثبوت پیش کرنے کا موقع آیا تو جے آئی ٹی کا تھیلا خالی نکلا۔ ہمارے ہاں بہت سارے مقاصد زہریلا پروپیگنڈہ کر کے ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نوازشریف کو بھی کرپٹ قرار دینے کا یہ فارمولا اپنایا گیا مگر عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی۔

No comments.

Leave a Reply