افغانستان کو سیکیورٹی معاہدے پر مجبور نہیں کر سکتے

وزیر خارجہ جان کیری اور مشیر خارجہ سرتاج مصافحہ کرتے ہوئے

وزیر خارجہ جان کیری اور مشیر خارجہ سرتاج مصافحہ کرتے ہوئے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ افغان صدر حامد کرزئی کو امریکہ سے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط  کرنے کے لیے پاکستان مجبور نہیں کر سکتا۔ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج  کی واپسی کے بعد خطے کے ممالک کو عدم مداخلت کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا بیرونی طاقتوں کو نہیں، افغانیوں کو پر کرنا چاہیے۔ افغانستان کے حوالے سے خدشات سے امریکہ کو آگاہ کر دیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں مذاکرات یا آپریشن کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں امریکہ کے ساتھ شمالی وزیرستان کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ ذرائع کے مطابق کرزئی کی جانب سے سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہ کیے جانے سے پریشان امریکی حکام نے پاکستان کے مشیر خارجہ سے اس ضمن میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔ پاکستانی سفارت خانے میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جب افغان اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیں تو ہم وہاںترقی اور تعمیر نو میں مسابقت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد جنگجو گروپوں کی حمایت کی صورت میں مداخلت ہوئی تو افغانستان میں امن و استحکام کی منزل حاصل نہیں ہو سکے گی۔ سرتاج عزیز نے خدشہ ظاہر کیا کہ انخلا کے بعد افغان فورسز کو مزاحمتی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت ہو گی، ایسی صورت میں تشدد کا سلسلہ پاکستان تک پھیل سکتا ہے۔ ہمیں پاک افغان سرحد پر انتظامات بہتر بنانا ہوں گے۔ افغانستان میں پھر خانہ جنگی شروع ہوئی تو ہمیں پھر افغان مہاجرین کے سیلاب کا سامنا ہو گا۔ بہتر انتظام کا مطلب نقل و حرکت پر چیک رکھنا ہے۔ یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ آنے جانے والوں کے پاس ضروری دستاویز ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک لاکھ افراد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان کو لاحق افغانستان کے حوالے سے خدشات کے حوالے سے امریکہ کو آگاہ کیا گیا ہے اور یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ اس حوالے سے بھارت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا  کہ افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے مقاصد مشترک ہیں۔ پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کی جانب سے وفد کے اعزاز میں عشایئے سے خطاب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں ممالک کے حکام نے متعدد شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ باہمی اعتماد میں اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کو اسٹریٹیجک لانگ ٹرم پارٹنر شپ میں بدل دے گا۔ اس موقع پر امریکی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی پورے خطے کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ خود پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں مل جل کر جد و جہد کرنی چاہیے اور جہاں کہیں اختلافات سامنے آئیں، انہیں کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاک امریکہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ توانائی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے، خاص طور پر اس شعبے میں اصلاحات کے لیے پاکستان سے مل کر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ امریکہ  پاکستانی معیشت دوبارہ فعال کرنے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ مشکل فیصلوں کو سراہتا ہے۔ باہمی تجارت و سرمایہ کاری پاک امریکہ تعلقات کا مستتقبل ہیں۔ پاکستان امریکہ تجارتی اداروں کے لیے ابھرتی ہوئی وسیع مارکیٹ ہے، جبکہ امریکہ پاکستان کے لیے سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اقتصادی تعلقات میں اضافے کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ وسطی و جنوبی ایشیا کے لوگوں کے زبردست اقتصادی مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت اور نیوسلک روڈ ویژن کے تحت اقدامات خطے کے مفاد میں ہیں۔ پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے پیش رفت کو اطمینان بخش قراردیا گیا ہے۔  پاک امریکہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں وزارتی اجلاس کے بعد مشترکہ جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان اور امریکہ نے مضبوط و پائیدار شراکت کے لیے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ یہ خطے اور پوری دنیا کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کی اقتصادی نمو، باہمی تجارت میں اضافہ، خطے کا استحکام، انتہا پسندی و دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات باہمی مفاد میں ہیں۔ مذاکرات میں امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں نجی شعبے کی قیادت میں اقتصادی نمو کی حمایت کی اور القاعدہ کو شکست دینے میں مدد دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ امریکہ نے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج، شہریوں کی قربانیوں، جوہری سلامتی یقینی بنانے و اسٹریٹیجک ٹریڈ کنٹرول کے اقدامات میں بہتری کو سراہا۔ دونوں ملکوں نے قرار دیا کہ افغان باشندوں کی قیادت میں جاری مفاہمتی عمل میں گزشتہ دس سال میں حاصل کی گئی کامیابیوں کا احترام کیا جانا چاہیے، یہ مفاہمتی عمل ہی تشدد کے خاتمے و پائیدار استحکام کا حقیقی راستہ ہے، جس میں پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق پاکستان اس سلسلے میں مزید ٹھوس اقدامات کرے گا۔ دونوں رہنمائوں نے افغان طالبان سے سیاسی عمل میں شمولیت و افغان حکومت سے مذاکرات کا مطالبہ بھی دہرایا۔ مذاکرات میں باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے پاکستان و پورے خطے کو خوشحال، محفوظ و مستحکم بنانے کے پختہ عزم کا اظہار کیا گیا۔ مشترکہ اجلاس میں پانی و دیگر وسائل سے بجلی پیداوار میں اضافے، توانائی شعبے میں اصلاحات پر زور دیا گیا، تاکہ نجی شعبہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھے۔ پاک فوج کے لیے امداد سے متعلق معاملات پر ڈیفنس ریسورسنگ کونسل کے فروری میں ہونے والے اجلاس میں غور کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں طے پایا کہ دونوں ممالک رواں سال ہیگ میں ہونے والی جوہری سیکیورٹی سربراہ کانفرنس میں بھی شرکت کریں گے۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری سے ناصرف استحکام اور خوشحالی کے مواقع پیدا ہوں گے، بلکہ اس سے دونوں ممالک کے عوام بھی مستفید ہوں گے۔

No comments.

Leave a Reply