امریکہ اور اتحادیوں کا شام پر حملہ، دمشق دھماکوں سے گونج اٹھا

سات سال کی خانہ جنگی کے دوران 50 بار کیمیائی ہتھیار استعمال کیے

سات سال کی خانہ جنگی کے دوران 50 بار کیمیائی ہتھیار استعمال کیے

دمشق ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رات گئے اپنے خطاب میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی شامی دارالحکومت دمشق میں کئی دھماکے سنے گئے۔ خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق امریکا کے Tomahawk cruise اور برطانیہ کے Storm Shadow Missiles نے Damascus اور Homs کے قریب مختلف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق حملے میں شام کے سائنسی تحقیقی ادارے اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ امریکی میرین کور کے General Denford نے واضح کیا کہ حملوں میں جیٹ طیاروں نے حصہ لیا اور روس کو ان حملوں اور اہداف کے بارے میں پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ برطانیہ کی وزارت دفاع نے بھی شام پر حملوں میں جیٹ طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی ہے  اور بتایا کہ رائل ایئر فورس کے Tornado GR4 Force aircraft طیاروں نے Homs سے 15 کلومیٹر دور فوجی تنصیبات پر میزائل داغے۔ دوسری جانب شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے اور حملوں کے خلاف میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا گیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹی وی نے دعوی کیا ہے کہ اس دفاعی نظام نے کئی Cruise missile ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیئے۔ واضح رہے کہ حملوں کا نشانہ بننے والے فوجی اڈے اور ایئرپورٹس پہلے ہی خالی کرا لیے گئے تھے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا موقف:

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ شامی صدر Bashar al-Assad کی فوج نے 7 سال کی خانہ جنگی کے دوران 50 بار کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔نہتے شہریوں پر تازہ کیمیائی حملہ رواں ماہ 7 اپریل کو Ghota کے شہر Doma پر کیا گیا، جس میں 70 سے زیادہ افراد جاں بحق اور سینکڑوں متاثر ہوئے، ان میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ فرانس نے بھی شام کے خلاف بھرپور عالمی ردعمل کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری جانب برطانیہ نے شام کے تنازع کے حوالے سے ہر صورت امریکا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام میں کیمیائی حملے کا الزام روس پر عائد کیا گیا اور امریکی صدر کی جانب سے ماسکو کو خبردار بھی کیا گیا کہ وہ جلد یا تاخیر سے حملے کے لیے تیار رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے روس نے کہا تھا کہ امریکا میزائل حملے کی بات کر کے جنگ کو دعوت دے رہا ہے اور جس جگہ سے شام پر حملہ ہو گا، روس اسی جگہ کو نشانہ بنائے گا۔ دوسری جانب شام کا کہنا تھا کہ امریکا اور یورپ دنیا کو جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔امریکی محکم دفاع کے حکام نے تین اہداف کا ذکر کیا ہے جنھیں نشانہ بنایا گیا ہے

1۔ دمشق کا سائنسی تحقیقی ادارہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کیمیائی ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔

2۔ حمص شہر کے مغرب میں واقع کیمیائی ہتھیار رکھنے کا مرکز

3۔ حمص کے نزدیک ہی کیمیائی ہتھیاروں کے ساز و سامان رکھنے کی جگہ اور اہم کمانڈ پوسٹ

شامی ٹی وی نے بتایا ہے کہ شام کی حکومتی افواج نے کئی درجن میزائلوں کو تباہ کر دیا ہے۔روئٹرز نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا کہ دارالحکومت دمشق میں کم از کم 6 زور دار دھماکے سنے گئے ہیں۔شام کے سرکاری ٹی وی نے بھی حملے کی تصدیق کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک کے فضائی دفاعی نظام کو سرگرم عمل کر دیا گیا ہے۔ اس حملہ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم یہ جوابی کارروائی اس وقت تک جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں  جب تک شامی حکومت ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں روکتی۔ انھوں شام کے صدر Bashar al-Assad کے بارے میں کہا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس یہ ایک عفریت کے جرائم ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ شام میں مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے Tomahawk cruise میزائل کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی فیکٹریوں پر حملہ:

امریکہ نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی سائٹوں پر برطانیہ اور فرانس کے اشتراک میں میزائل حملے کر دیے ہیں۔امریکہ نے بظاہر یہ اقدام شام کی جانب سے Doma پر مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں اٹھایا ہے۔ اس وقت اطلاعات کے مطابق شامی دارالحکومت دمشق کے ارد گرد شدید دھماکوں کی گونج سنی جا سکتی ہے۔

برطانیہ کی جانب سے Tornado GR4 Force aircraft بھیجے گئے:

برطانوی وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ Tornado GR4 aircraft طیاروں سے کیے جانے والے برطانوی حملے میںHoms شہر کے پاس ایک فوجی ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس فوجی ٹھکانے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کیمیائی ہتھیار بنانے کے سامان رکھے ہوئے ہیں۔

امریکہ، فرانس اور برطانیہ کا حملہ: ون ٹائم ہٹ تھی:

امریکی وزیرِ دفاع James Mattis نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فی حال یہ ایک ون ٹائم ہٹ تھی۔

کیمیائی حملے کا ڈراما غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی مدد سے رچایا گیا:

گذشتہ روز روسی وزیرِ خارجہ Sergei Lavrov کا کہنا تھا کہ اس کے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ Doma میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کا ڈراما غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی مدد سے رچایا گیا۔a اس سے قبل روس نے متنبہ کیا تھا کہ اگر امریکہ نے شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں فضائی حملے کیے تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے۔

سرد جنگ کا آغاز:

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل Antonio Griterus نے کہا ہے کہ سرد جنگ کا آغاز پھر ہو گیا ہے۔Antonio Griterus نے شام کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا۔ واضح رہے کہ Antonio Griterus کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے  جب شام کے شہر Doma میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے کے حوالے سے امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ امریکا نے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے شام پر حملہ کر دیا۔ حملوں کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہتے شہریوں پر شام کی فوج کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو جواز بنایا۔

Tomahawk cruise ، Storm Shadow Missiles کے حملے:

امریکا کے Tomahawk cruise میزائلز، برطانیہ کے Storm Shadow Missiles نے دمشق اور Homs کے قریب مختلف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق حملے میں شام کے سائنسی تحقیقی ادارے اور کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ کی وزارت دفاع کے مطابق رائل ایئر فورس کے Tornado GR4 طیاروں نے Homs کے قریب فوجی تنصیبات پر میزائل داغے۔ شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ فضائی دفاعی نظام فعال کر دیا گیا ہے، اب تک 13 کروز میزائل اہداف کو نشانہ بنانے سے پہلے ہی تباہ کر دیے گئے۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے قرارداد منظور کرانے میں ناکامی کے باوجود شام پر حملہ کر دیا۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے رات گئے خطاب میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان کیا، جس کے ساتھ ہی شامی دارالحکومت دمشق میں کئی دھماکے سنے گئے۔

مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا:

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شام میں امریکی فوجی ایکشن جاری ہے، شام میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے، حملہ برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ شام کا کیمیائی حملہ کرنا اس کی بنیاد بنا، شام پر حملوں کا تسلسل برقرار رہے گا۔ صدر ٹرمپ نے ایران اور روس کو شام سے تعلقات پر انتباہ کیا،  ان کا کہنا تھا کہ کیمیائی حملوں پر شامی حکومت اس کے روسی اور ایرانی اتحادیوں کا احتساب کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ Bashara al-Assad کے مستقبل کا فیصلہ شام کے عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ خبر ایجنسیوں کے مطابق ابتدائی طور پر امریکا کو برطانیہ اور فرانس کی حمایت اور تعاون حاصل ہے۔ امریکا کے Tomahawk cruise میزائل، برطانیہ کے Storm Shadow Missiles سے شام کی فوجی تنصیبات، سائنسی تحقیقی ادارے اور کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ ذخیرے کو نشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ کی وزارت دفاع نے بھی شام پر حملوں میں جیٹ طیاروں کے استعمال کی تصدیق کی ہے  اور بتایا کہ Homs سے 15 کلومیٹر دور فوجی تنصیبات پر میزائل داغے گئے۔

شام کا 13 میزائل تباہ کرنے کا دعوی:

شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جا رہا ہے، حملوں کے خلاف میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا گیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹی وی نے دعوی کیا ہے کہ اس کے دفاعی نظام نے 13 کروز میزائل ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملوں کا نشانہ Bennylolphy Aydiaur Airports پہلے ہی خالی کرا لیے گئے تھے۔ شام کی فوج کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے ابھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے شام پر حملے ختم ہو گئے تو انہیں محدود سمجھا جائے گا۔ شامی سرکاری ٹی وی کے مطابق سینئر عہدے دار نے اس حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ اس کارروائی سے عالمی برادری کی شام سے متعلق خواہش کو ٹھیس پہنچی، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شامی سرکاری ٹی وی کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی اتحادیوں نے Homs میں اسلحے کے ڈپوئوں پر حملہ کیا، حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، جس سے دہشت گردوں کے چنگل سے نکلنے میں کامیابی حا صل نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں جب تک شام کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ختم نہیں کرتا،  روس، شامی کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق وعدے پر قائم نہیں رہا۔

حملوں کا مقصد شامی حکومت کی تبدیلی نہیں:

برطانیہ کی وزیر اعظم Theresa May کا کہنا ہے شام پر حملوں کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا،حملوں کا مقصد شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت ختم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت شام کی خانہ جنگی میں مداخلت اور Bashir al-Assad کی حکومت تبدیل کرنے کے مقاصد نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا ہے کہ فضائی حملے میں اب تک کسی شخص کے مارے جانے کی اطلاع نہیں، میزائل حملوں میں اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ معصوم شہری نشانہ نہ بن جائیں۔

کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال برداشت نہیں کریں گے:

فرانس کے صدر Emmanuel Macon نے کہا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ فرانس نے شام کے خلاف کارروائی میں امریکا اور برطانیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے،  جس کا مقصد شامی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار کو نشانہ بنانا اور نہتے شہریوں پر اس کا استعمال روکنا ہے۔ روس نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کو شام میں کی گئی کارروائی کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ امریکا میں روسی سفیر نے کہا کہ امریکا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، امریکی اتحاد کا شام پر حملہ کھلی جارحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی کے صدر کی توہین ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ ڈپٹی چیئرمین دفاعی کمیٹی Douma کہتے ہیں کہ ٹرمپ اور ہٹلر ایک سے ہیں، بلکہ ٹرمپ ہٹلر ثانی ہیں۔

کینیڈا کی شام پر حملے کی حمایت:

کینیڈا کے وزیر اعظم Justin Trudeau نے شام پر امریکی حملوں کی حمایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈا، امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے اسد حکومت کی کیمیائی حملوں کی صلاحیت کو نشانہ بنانے کی حمایت کرتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply