افغان طالبان کا پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے سے انکار

افغانستان میں  20 اکتوبر کو ہونے والی انتخابات

افغانستان میں 20 اکتوبر کو ہونے والی انتخابات

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان طالبان نے کئی مہینے بعد صدر اشرف غنی کی جانب سے کی جانے والی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے افغانستان کے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا جواز ملک میں امریکی افواج کی موجودگی، افغانستان کے حکومتی امور میں امریکی مداخلت اور عوام کو آزادانہ اظہار رائے کا حق استعمال کرنے سے روکنے کو بنایا گیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان 20 اکتوبر کو ہونے والی انتخابات کو نمائشی اور عوام سے دھوکا سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ افغان حکومت میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو انخلا پر مجبور کرے اور ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے آئین میں تبدیلی کرے۔ لہذا طالبان نمائشی پارلیمانی انتخابات میں شریک نہیں ہوں گے۔ تاہم طالبان نے اپنے بیان میں یہ نہیں کہا ہے کہ وہ الیکشن لڑنے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ جبکہ اس سے قبل وہ الیکشن میں حصہ لینے والوں کو کارروائی کو دھمکی دیتے رہے ہیں۔ بیان میں کابل حکومت کی جانے والی پیشکش کو دو ماہ بعد مسترد کرتے ہوئے طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت غیر ملکیوں کے قبضے میں ہے۔ہزاروں غیر ملکی افغانستان میں مقیم ہیں۔ سیاسی اور فوجی فیصلے امریکی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری تو یہ تھا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکیوں کو نکالا جاتا۔ لیکن یہ سیاسی حق بھی ہمیں نہیں دیا جا رہا ہے۔ اگر اس بات کی جمانت دی جاتی کہ ان لوگوں کا انتخابات میں حصہ لینے کا آزادنہ موقع دیا جائے گا،  جو امریکی انخلا کی بنیاد پر عوام سے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو طالبان انتخابات میں حصہ لینے پر سوچ سکتے تھے۔ لیکن افغان حکومت اس حوالے سے ناکامی ظاہر کر دی ہے۔

افغان طالبان کے بیان میں افغانستان کے گزشتہ انتخابات میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان مکیری کی مداخلت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جان کیری نے افغان عوام کی جانب سے دیئے جانے ووٹوں کے برعکس اتحادی حکومت تشکیل دی، جو افغانستان کے سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت تھی۔ اتحادی حکومت کا اعلان امریکی سفارت خانے کی جانب سے کیا گیا۔طالبان نے افغان عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ نہ لیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کی بجائے دینی اور قومی وحدت کے لیے کام کریں گے اور افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ افغان طالبان کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر اشرف غنی نے ووٹر لسٹوں میں ناموں کے اندارج کی مہم شروع ہوتے ہی طالبان کو انتخابات میں حصہ لینے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ لینا اور سیاسی جدوجہد ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ امریکہ کی جانب سے سیاسی مداخلت ہو رہی ہے۔ افغان عوام کو سیاسی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ امریکی قبضے کے دوران ہونے والے انتخابات میں افغان عوام کو آزادانہ رائے کا حق نہیں دیا جا رہا ہے، اور بندوق کے زور پر ان کے سیاسی حقوق غضب کئے جا رہے ہیں۔ اگر طالبان انتخابات میں حصہ لیتے اور جیت جاتے ہیں تو کیا افغان حکومت کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ حکومت طالبان کے حوالے کر کے امریکیوں کو باہر نکال دے گی۔

الیکشن کے بعد بھی ملک میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔کیونکہ اقتدار کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے گا جنہیں وائٹ ہائوس اور پنٹا گون منتخب کرے گا۔لہذا افغان عوام سے اپیل ہے کہ وہ ان جعلی انتخابات میں شرکت کے بجائے امریکیوں کے انخلا کے لیے طالبان کا ساتھ دیں۔امریکہ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے افغانستان میں انتخابات کا ڈھونگ رچانا چاہتا ہے۔دنیا بھر میں جہاں امریکہ مخالف سیاسی اور اسلامی تحریکوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی انہیں اقتدار سے دور رکھا گیا اور افغانستان میں بھی یہی کھیل کھیلا جائے گا۔ذرائع کے مطابق یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ افغان طالبان کی جانب سے عوام کو زبردستی ووٹ دینے سے روکا جائے گا اور ماضی کی طرح الیکشن میں حصہ لینے والوں کو بھی قتل کی دھمکیاں دی ۔ لیکن طالبان نے پہلی بار انتہائی نرم انداز میں اپنا موقف پیش کیا ہے  اور افغان عوام کو آزادی دی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں یا نہ لیں۔ اسی طرح افغان سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان چاہتے ہیں کہ پارلیمان میں ایسے لوگ آ جائیں جو امریکہ کے خلاف ہیں اور وہ امریکی انخلا کے حوالے سے بات کریں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان چاہتے ہیں کہ حزب اسلامی سمیت ایسی تنظیمیں جو امریکہ کو جمہوری طریقے سے افغانستان سے نکالنا چاہتی ہیں، انہیں موقع دیا جائے۔

No comments.

Leave a Reply