جاپانی وزیر اعظم کو اسکول اسکینڈل کے طور پر استعفی کے لئے دباؤ

پارلیمنٹ کے سامنے جاپانی وزیر اعظم کے خلاف 50 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے استعفی کا مطالبہ کیا

پارلیمنٹ کے سامنے جاپانی وزیر اعظم کے خلاف 50 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے استعفی کا مطالبہ کیا

نیوز ٹائم

حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم اور حکومت کی تبدیلی کے لئے کتنے جتن کئے جاتے ہیں جبکہ جاپان جیسے جمہوری ملک میں ایک چھوٹی سی غلطی بھی مقبول وزیر اعظم کی تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے،  پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی بعض عناصر نے حکومت کے خاتمے کے لئے تانے بانے بننا شروع کر دیئے تھے  جو دیکھنے والوں کو نظر بھی آنے لگے، میاں نواز شریف سے بھی بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جسے جمہوریت پسند قوتوں نے بھی محسوس کیا  اور حکومت کو باور کرانے کی کوششیں بھی کیں کہ ایک طویل عرصے کی کوششوں اور انتظار کے بعد میاں نواز شریف کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ملا ہے  انہیں سرد جنگ اور مخالفت سے بچ کر 5 سال پورے کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔  حالات کچھ معمول پر بھی آئے لیکن پھر جنرل مشرف کے مسئلے پر ایک بار پھر معاملات بگڑنے لگے اور جب دیکھا گیا کہ حالات خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں تو مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دی گئی  اور حکومت نے مدت تو جیسے تیسے کر کے پوری کر لی لیکن میاں صاحب کو نااہل ہونا پڑا اور اب جیل کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔  اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت وقت اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، مفاد پرست ارکان اسمبلی موجودہ حکومت سے بھرپور فوائد اٹھانے کے بعد اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔  جس کے بعد میاں نواز شریف کے ہاتھوں سے طاقت اس طرح نکل رہی ہے جیسے بند مٹھی سے ریت نکلتی ہے۔ عمران خان کے اعتماد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں شیروانی صرف ان کی ذاتی زندگی میں ہی نہیں بلکہ سیاسی زندگی میں بھی نظر آنے لگی ہے۔ یہ پاکستان کی سیاست کا حال ہے جہاں جمہوریت کبھی مستحکم نہیں ہو سکی۔ توقع ہے کہ موجودہ حکومت کے خاتمے اور اگلی حکومت کے قیام کے بعد سب مل کر جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

اب جاپان کی مضبوط جمہوریت میں موجودہ وزیر اعظم کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیتے ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم Shinzo Abe  وزارت عظمی کے 6 سال مکمل کر چکے ہیں جبکہ حکومت کے خاتمے میں کئی سال باقی ہیں تاہم گزشتہ سال سامنے آنے والا کرپشن کا ایک الزام شاید اب ان کو اپنی مدت پوری نہ کرنے دے۔ ہوا یہ تھا کہ وزیر اعظم Shinzo Abe  اور ان کی اہلیہ نے اپنے ایک مشترکہ دوست کو جاپان کے شہر Osaka میں اسکول کھولنے کے لئے سرکاری زمین کی خریداری پر نصف رعایت دلوانے میں کردار ادا کیا۔ اس اسکینڈل نے جاپانی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں اور چند ماہ قبل جاپانی وزیر اعظم کو اس اسکینڈل سے بچانے کے لئے وزارت خزانہ نے زمین کی خریداری کے کاغذات میں سے جاپانی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کا نام جعلی طریقے سے نکال دیا۔ جب یہ بات کھل کر سامنے آئی تو یہ الزام شاید خطرناک ثابت ہوا اور جاپانی وزیر اعظم پر مستعفیٰ ہونے کے لئے دبائو مزید بڑھ گیا۔ اب جبکہ جاپان کو شمالی کوریا کی جانب سے سخت خطرے کا سامنا ہے،  امریکہ اور جاپان مشترکہ طور پر جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور جاپانی وزیر اعظم Shinzo Abe موجودہ ہفتے میں ہی امریکہ کے دورے پر ہوں گے ایسے وقت میں ان پر مستعفیٰ ہونے کا دبائو شائد جاپان کے مفاد میں نہ ہو لیکن گزشتہ روز ہی پارلیمنٹ کے سامنے جاپانی وزیر اعظم کے خلاف 50 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے استعفی کا مطالبہ کیا۔ جس سے لگتا ہے کہ اب Shinzo Abe کا عہدے پر رہنا آسان نہ ہو گا۔

جاپان کے سابق اور مقبول ترین وزیر اعظم Junichiro Koizumi بھی ان کی مخالفت میں سامنے آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان کو ایٹمی توانائی بطور بجلی بنانے کے لئے استعمال نہیں کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم Shinzo Abe جاپان میں ایٹمی پاور پلانٹ کو بجلی تیار کرنے کے استعمال کے حق میں ہیں لہذا جاپان میں حالیہ ہونے والے پول میں Shinzo Abe کی مقبولیت کم ہو کر صرف 26 فیصد رہ گئی ہے  جبکہ آئندہ وزیر اعظم کے لئے جاپان کے سابق وزیر دفاع Shigeru Ishiba کو 27 فیصد تائید حاصل ہے،  ان کے بعد سابق جاپانی وزیر اعظم  Junichiro Koizumi کے بیٹے  Shinjiro Koizumi کو موجودہ وزیر اعظم کے متبادل کے لئے 25 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپان میں تبدیلی بہت زیادہ دور نہیں۔

جاپانی سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم Shinzo Abe کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ان کا عہدہ برقرار رکھنے میں مدد نہیں دے سکیں گے۔ شائد جاپانی وزیر اعظم حالیہ مہینے یا اگلے ماہ امریکہ، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والے اہم مذاکرات میں بطور وزیر اعظم شرکت نہ کر سکیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ تبدیلی کب تک رونما ہوتی ہے۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک جہاں جمہوریت انتہائی مضبوط ہے میں تبدیلی کا امکان ہے  لیکن اس تبدیلی کے لئے سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کے اندر ہی ہلچل ہوئی ہے اور یہیں سے تبدیلی آئے گی۔ صرف ایک سیاسی غلطی ایک کرپشن کا معاملہ ہی جاپانی وزیر اعظم کی مقبولیت میں کمی کا سبب بنا اور نظام نے اپنا کام شروع کیا اور وزیر اعظم کی کرسی میں ارتعاش پیدا ہوا یہ سب ایک مثالی جمہوریت کا حسن ہے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply