افریقی ملک گھانا میں اذان پر پابندی لگا دی گئی

گھانا حکومت نے ''وائس پالیوشن'' کا جواز بناتے ہوئے تمام مسجد سے لائوڈ اسپیکر اتارنے کا حکم بھی دے دیا

گھانا حکومت نے ”وائس پالیوشن” کا جواز بناتے ہوئے تمام مسجد سے لائوڈ اسپیکر اتارنے کا حکم بھی دے دیا

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

افریقی ملک گھانا میں call to prayers پر پابندی لگا دی گئی۔ گھانا حکومت نے ” Noise pollution ” کا جواز بناتے ہوئے تمام مسجد سے Loud speaker اتارنے کا حکم بھی دے دیا۔ مسلم کمونٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ نماز کی دعوت کے لیے WhatsApp اور ایس ایم ایس سروس کا استعمال کیا جائے۔ ادھر گھانا کے مسلمانوں نے حکومتی اقدامات کو اسلام دشمنی سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ گھانا کے مسلمان صدیوں سے گونجتی call to prayersکی آواز کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کے احکامات کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ گھانا کی مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ تیز میوزک، پریشر ہارنز کے شور سمیت دیگ رتوجہ طلب مسائل کو چھوڑ کر گھانا حکومت call to prayersکے خلاف ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہے۔ لیلکن مسلم کمیونٹی اس سلسلے میں حکومت پابندی کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرے گی۔ مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ گھانا کی تمام مساجد میں مناسب تعداد میں ہی Loud speaker نصب کئے گئے ہیں اور انہیں صرف call to prayers کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ call to prayers کی آواز کو کسی بھی صورت سمعی آلودگی کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آل افریقا ڈاٹ کام کے مطابق گھانا کی حکومت تمام اہم معاملات پس پشت ڈال کر صرف مساجد پر توجہ مرکوز کئے بیٹھی ہے۔ حالانکہ دیگر مسائل پر توجہ دی جائے تو ملک میں سمعی آلودگ کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب گھانا کے وزیر ماحولیات کا اصرار ہے کہ مسلم کمیونٹی حکومتی پابندیوں کا احترام کرے اور تمام مساجد سے Loud speaker فوری طور پر اتار دیئے جائیں۔ نماز کی دعوت کے لئے WhatsApp سمیت سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس کا استعمال کیا جائے۔ جبکہ جہاں انٹرنیٹ سروس میسر نہیں ہے، ان علاقوں میں ایس ایم ایس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وزیر ماحولیات کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے عالمی صحت نے بتایا ہے کہ شور انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور اس سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومت نے call to prayers پر پابندی عائد کی ہے۔ اگر مسلم کمیونٹی نے اسل سلسلے میں تعان نہیں کیا تو جلد ہی گھانا حکومت اس حوالے سے سخٹ قانون سازی کرے گی اور اس حوالے سے طاقت اور قانون کا استعمال کیا جائے گا۔

دوسری جانب گھانا کے درالحکومت آکرہ کی جامع مسجد کے امام Sheikh Ahmed Albana کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دیگر شعبوں میں شور کی آلودگی کے مسائل اور ان کے حل کے لیے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اس نے صرف مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا ہے، جس کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ call to prayers کی آواز سے مسلمانوں سیمت تمام افراد کے دل و دماغ کو سکون ملتا ہے۔ کوئی بھی سائنسدان یا طبیب یہ بات ثابت نہیں کر سکتا کہ اذان کی آواز سے سمعی آلودگی یا نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب حکومت کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ کیونکہ گھانا میں اسلام کی تبلیغ مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے قادیانی لابی اور اس کی سرپرست گھانا حکومت پریشان ہے۔ اس لئے انہوں نے call to prayers پر پابندی عائد کی ہے۔ مقامی مسلم کمیونٹی نے بھی گھانا کی حکومت پر تنقید کی ہے۔ایک خاتون Bano Aziza کا کہنا ہے کہ call to prayers پر پابندی عائد نہیں کی جانی چاہئے۔کیونکہ صرف پانچ اوقات میں ایک یا ڈیڑھ منٹ کے اندر call to prayers مکمل ہو جاتی ہے۔ اس سے کی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ گھانا ٹائمز سے گفتگو میں مقامی مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ہر کوئی سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتا اور ہر شخص موبائل فون بھی استعمال نہیں کرتا۔ اس لئے حکومت اس احمقانہ پابندی کو فوری واپس لے۔

No comments.

Leave a Reply