شام کی لڑائی میں ترکی کہاں کھڑا ہے؟

شام میں گزشتہ 8 سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں

شام میں گزشتہ 8 سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں

ڈاکٹر فرقان حمید ۔۔۔ نیوز ٹائم

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور شام دو ایسے ممالک ہیں جو روس کے ساتھ بڑی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ دراصل ان دونوں ممالک کی یہ وابستگی ان کی بقا کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ ایران کے دور میں ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ملک تھے لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران، امریکہ کی گود سے نکل کر روس کی آغوش میں جا گرا اور اس وقت سے روس، ایران کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آ رہا ہے اور دونوں ممالک اب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے ہیں۔ شام کے امریکہ کے ساتھ کبھی بھی قریبی تعلقات نہیں رہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں شام ہی واحد ملک تھا جس کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات اپنی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور حافظ الاسد کے انتقال کے بعد بشار الاسد نے برسر اقتدار آنے پر اپنے والد سے ہٹ کر پالیسی اپنائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لئے خصوصی توجہ دی اور اس دور میں بشار الاسد کو دنیا بھر میں مقبولیت بھی حاصل ہونا شروع ہو گئی۔

بشار الاسد نے اسی دوران ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات جو کہ بہت ہی خراب تھے کو بہتر بناتے ہوئے ترکوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔ ترکی اور شام کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کا ایک دور ایسا بھی آیا جب دونوں ممالک کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوئے  اور دونوں ممالک نے تعاون کے 52 مختلف سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے۔ بشار الاسد، صدر اردگان کو اپنا بڑا بھائی سمجھنے لگے اور دونوں رہنما اکٹھے ہو گئے۔ ترکی کے صدر اردگان نے مشرقِ وسطی میں بہارِ عرب کے نام سے شروع ہونے والی نئی جمہوری تحریک کے بعد شام میں جمہوریت کو مضبوط بنانے اور ملک میں جمہوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی اور بشار الاسد اس تلقین کو قبول کرتے ہوئے بھی دکھائی دئیے لیکن خفیہ قوتوں نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا  حالانکہ صدر اردگان نے اس سلسلے میں بشار الاسد سے کئی بار قریبی رابطہ قائم کیا اور جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کے لئے ہر ممکنہ تعاون کی بھی یقین دہانی کروائی لیکن یہ تعاون پروان چڑھنے میں ناکام رہی اور دونوں رہنما ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے اور پھر شام میں شروع ہونے والی بہار عرب کی تحریک خانہ جنگی کا روپ اختیار کرتی چلی گئی اور اس وقت سے اب تک شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔

شام میں گزشتہ 8 سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور لاکھوں ہی کی تعداد میں شامی باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس دوران بشار الاسد انتظامیہ نے مخالفین سے چھٹکارا پانے کے لئے بمباری کے ساتھ ساتھ کیمیائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شامی انتظامیہ نے سب سے پہلے 19 مارچ 2013ء کو اپنے ہی زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس استعمال کی جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ ترکی کے صدر اردگان نے 7 اپریل کے شامی انتظامیہ کے حالیہ کیمیائی حملے کے بعد کہا کہ  اگر امریکہ کے اتحادی 2013ء میں ہی شام کے ان کیمیائی حملوں کے خلاف کارروائی کرتے تو شام کو دوبارہ کیمیائی حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔شامی انتظامیہ نے 2013 ء ہی میں 21 اگست کو مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے غوطہ پر کیمیائی حملہ کیا جس میں 1400 سے زائد افراد مارے گئے۔27 ستمبر 2013ء کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کرنے کا حکم دیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کی وارننگ بھی جاری کی جس پر شامی انتظامیہ نے اکتوبر 2013ء میں کیمیائی ہتھیاروں کی مزاحمت کار تنظیم (OPCW) کی نگرانی میں اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دئیے اور 23 جون 2014ء  کو OPCW نے شام میں تمام کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنائے جانے کا اعلان کیا۔

لیکن مارچ 2017ء میں شام میں انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ادلب میں مخالفین کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی حملے میں 88 افراد کے ہلاک ہونے سے آگاہ کیا اور 7 اپریل 2018ء کے دوما میں حالیہ کیمیائی حملے نے امریکہ اور اس کے دو اتحادی ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق کے ضلعے Homsکے قریب واقع دو حکومتی تنصیبات پر مجموعی طور پر 105 میزائل داغے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں میں شامی حکومت کے زیر استعمال کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کے تین مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ شامی خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی یہ سب سے بڑی عسکری مداخلت ہے۔ تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے مطابق ان حملوں میں فقط شام کی کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا  اور ان حملوں کا مقصد اسد حکومت کا خاتمہ یا شامی تنازعے میں مداخلت نہیں تھا۔

ترک صدر اردگان نے دنیا کو بہت پہلے ہی شام میں جاری خانہ جنگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا اور اس کے خاتمے کے لئے اپنی بھرپور کوششیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ہوئے ان کے زخموں پر مرہم رکھا اور اس سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کی تاکہ شام میں معصوم انسانوں کو مرنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے روس اور امریکہ کے رہنمائوں سے شام کے مسئلے پر احتیاط کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے امریکہ کے صدر ٹرمپ اور روس کے صدر Vladimir Putin سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ٹیلی فونک بات چیت کی۔ دیکھا جائے تو ترکی ہی علاقے میں واحد ملک ہے جو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ بڑے خوشگوار تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان سپر قوتوں سے برابری کی سطح پر اپنی باتیں منوانے کا بھی حق رکھتا ہے۔ ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف اس کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں۔ اس سے ایس 400 میزائل خرید رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پہلا ایٹمی پلانٹ بھی روس ہی کے تعاون سے لگایا جا رہا ہے۔ ترکی اپنے ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ کے درمیان شام کے معاملے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں روسی پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ، Vladimir Shmonov کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور روس کے فوجی سربراہان کے درمیان ترکی کے توسط سے رابطہ قائم ہوا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل Zhen Stolenberg بھی ترکی کے دورے پر پہنچے اور انہوں نے صدر اردگان سے علاقے کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔ گزشتہ ہفتے ہی انقرہ میں صدر اردگان کی نگرانی میں شام کی صورتِ حال سے متعلق سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا  جس میں روس کے صدر ولادِ میر پوٹن اور ایران کے صدر حسن روحانی نے شرکت کی تھی اور اب یہ سہ فریقی سربراہی اجلاس ایران میں منعقد ہو گا۔ شام سے متعلق سربراہی اجلاس سے ترکی، شام کے حامی اور شام کے مخالف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو پناہ دیتے ہوئے ایک ثالث اور انسان دوست ملک ہونے کا بھی ثبوت فراہم کر رہا ہے۔

No comments.

Leave a Reply