شمالی کوریا میں ہر شہری اپنی مرضی سے زندگی نہیں گزار سکتا

شمالی کوریا 15 اگست 1948ء  میں باقائدہ معرض وجود میں آیا تھا

شمالی کوریا 15 اگست 1948ء میں باقائدہ معرض وجود میں آیا تھا

نیوز ٹائم

دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہاں عوام کی سہولت کیلئے دن رات کام کیا جا رہا ہے۔ عوام کی آسانی کیلئے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہیں ہیں مگر ایک ایسا ملک بھی دنیا میں موجود ہے جہاں انسانی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ہو وہاں یا تو جمہوری نظام ہے یا بادشاہت ہے۔  اگر برطانیہ اور عرب ممالک کی بات کر لی جائے تو وہاں جمہوریت اور بادشاہت ایک ساتھ بھی ہے۔ دنیا میں ایک ایسا عجیب و غریب ملک بھی ہے جہاں عوام اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتی۔ یہ ملک شمالی کوریا ہے۔

چائنہ اور جاپان کے درمیان موجود شمالی کوریا، جنوبی کوریا سے علیحدگی اختیار کر کے 15 اگست 1948ء  میں باقائدہ معرض وجود میں آیا تھا۔  شمالی کوریا میں سال 2018ء کی بجائے 106 چل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 15 اپریل 1912ء کو Kim Il Song جو کہ شمالی کوریا کا بادشاہ رہ چکا ہے، پیدا ہوا تھا تب سے شمالی کوریا کا نیا کیلنڈر شروع ہوا تھا۔ شمالی کوریا میں تین طرح کی زبانیں، چائینیز، جاپانی اور کورین بولی جاتی ہیں۔ شمالی کوریا جنگی ہتھیاروں کی تیاری میں  بہت سرگرم ہے۔  اب تک  5 ایٹمی دھماکے جو کہ بلترتیب 2006، 2009، 2013 اور 2016ء بھی کر چکا ہے۔ آخری ایٹمی دھماکے کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایٹم بم جاپان پر ماضی میں گرائے گئے ایٹم بم سے بھی زیادہ شدت کا تھا۔ حال ہی میں شمالی کوریا ہائیڈروجن بم کا بھی کامیاب تجربہ کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کے پاس ایک ایسا میزائل بھی ہے جو 4000 کلومیٹر تک جا کر تباہی مچا سکتا ہے۔  شمالی کوریا کے ملٹری حکام کا دعوی ہے کہ ان کی ملٹری طاقت امریکا سے 5 گنا بڑی ہے۔  شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاریوں میں تیزی سے اضافہ پر امریکہ اور جاپان کی جانب خطے میں امن کو خطرہ سمجھ کر کئی بار وارننگ بھی دے چکے ہیں مگر شمالی کوریا اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے جارحانہ کاموں میں مصروف عمل ہے۔

شمالی کوریا میں عجیب و غریب قسم کے قانون ہیں۔ وہاں کے شہری اپنی پسند کے بال نہیں رکھ سکتے۔ وہاں مردوں کے لئے 10 ہیئر سٹائلز اور عورتوں کے لئے 18 سٹائلز ہیں۔ ان کے علاوہ وہاں کے لوگ بالوں کا سٹائل نہیں بنا سکتے اور نہ ہی شمالی کوریا کے بادشاہ Kim Jong Un جیسا ہیئر سٹائل بنا سکتے ہیں۔ شادی شدہ عورتوں کو بال چھوٹے رکھنے کا حکم ہے جبکہ بغیر شادی کے لڑکیاں بال لمبے رکھ سکتی ہیں۔ شمالی کوریا کا اپنا انٹرنیٹ ہے جو کورین زبان میں ہے۔ اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد 700 کے قریب ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے یہ تمام افرداد گورنمنٹ افسران ہیں۔ وہاں کی عوام فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سماجی ویب سائٹس تک رسائی نہیں رکھتی۔ ایپل، سونی اور دیگر بڑی کمپنیوں کو یہاں پراڈکٹ فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میڈیا کو حکومت کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ شمالی کوریا میں جرم کرنے والے کے باپ اور بیٹے کو بھی سزا دی جاتی ہے۔ اپنا نیا گھر خریدنے کے بعد اپنی مرضی کا  دیواروں پر رنگ بھی نہیں کروا سکتے۔ اس کے لئے بھی سرکار کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ شمالی کوریا میں عورتوں کیلئے پینٹ اور مردوں کیلئے جینز کا استعمال ممنوع ہے  کیونکہ شمالی کوریا کی حکومت ہر امریکن اشیا کے استعمال سے منع کرتی ہے، شمالی کوریا کے دارلحکومت میں ہر عام شہری کو جانے اور گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہاں صرف حکومتی عہدیداران ہی گھر بنا اور رہ سکتے ہیں۔ شمالی کوریا میں رہنے والے اپنی ذاتی گاڑی بھی نہیں خرید سکتے۔ اس کا حق بھی صرف سرکاری اور آرمی کے افسران کو ہی حاصل ہے۔

شمالی کوریا میں ہر 5 سال کے بعد الیکشن ہوتے ہیں اور نمائندہ ایک ہی ہوتا ہے جو کہ بادشاہ کی نسل سے ہوتا ہے، عوام نے اسی کو ووٹ دینا ہوتا ہے۔ کسی عام شہری کو الیکشن لڑنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس الیکشن کے ڈرامے سے شمالی کوریا خود کو جمہوری ملک کہلواتا ہے۔ ملک میں ہر گھر میں ریڈیو لگا ہے۔ ریڈیو کو بند نہ کرنے کا حکم ہے، چاہے آپ کا سننے کا دل نہیں چاہ رہا ہو یا آپ کے سر میں درد ہو۔ شمالی کوریا میں کسی شخص کو ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ سیاحوں کے ملک میں داخل ہوتے ہی ان کا موبائل ضبط کر لیا جاتا ہے اور اگر کوئی سیاح شمالی کوریا میں آ کر کسی سیاحتی ماہر کو ساتھ نہیں رکھتا تو اس کو جرم مانا جاتا ہے۔ شمالی کوریا کی عوام اتنا ظلم و ستم اور جبر برداشت کر رہی ہے۔  وہاں قانون کے نام پر انسانیت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام  اس جہنم جیسی زندگی سے نفرت بھی نہیں کر سکتی کیونکہ اجازت اس کی بھی نہیں ہے۔ آخر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنی آزاد زندگی کو چھوڑ کر شمالی کوریا میں سخت اور مشکل زندگی گزارنا چاہیں گے؟

No comments.

Leave a Reply